Maktaba Wahhabi

98 - 135
لوگ جو عقیدے میں تو صحیح تھے صرف سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو باقی صحابہ پر فضیلت دیتے تھے۔ایسے راویوں پر بھی اس کا متقدمین نے اطلاق کیا ہے۔جیسا کہ تدریب الراوی ہی کولے لیں ! (جس کا مفتی صاحب نے حوالہ دیا ہے ،مگر افسوس علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے جو تشیع سے مراد ذکر کی ہے وہ ان کو نظر ہی نہیں آئی)علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے صحیحین میں وہ راوی جن پر تشیع کا الزام ہے ان کے نام ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’ ’’هؤلاء رموا بالتشيع وهو تقديم علي على الصحابة‘‘[1]یہ راوی جن پر تشیع کا الزام ہے۔ وہ یہ ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو دوسرے صحابہ پر فضیلت دینا۔ اسی طرح امام ذہبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھتے ہیں : ’’امام ذہبی رحمہ اللہ نے صراحت کی ہے کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں ، (1) چھوٹی بدعت جیسے تشیع غلو کے ساتھ ہو یا بغیر غلوکے۔جیسے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ قتال کرنے والوں کے بارے میں کلام کرنے والا تابعین و تبع تابعین میں ایسے راوی (باوجود ان کے دین ، ورع اور صدق کے)موجود ہیں ۔اگر ان کی روایت کو رد کردیا جائےتو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث کا بہت بڑا حصہ ضائع ہوجائے۔ (2)بدعت کبری جیسے کامل رفض ،اور اس میں غلو۔ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما پر طعن کرناایسے راوی کی روایت حجت نہیں ۔ [2] نیز یہ بات خود حنفیہ نے بھی لکھی ، مثلاًسرفراز صفدر صاحب لکھتے ہیں : ’’شیعہ ہونا بغیر داعیہ کے اصول حدیث کے لحاظ سے کوئی جرح نہیں ‘‘[3] نیز لکھتے ہیں :’’متقدمین اور متاخرین کی اصطلاح لفظ شیعہ کے بارے میں جدا جدا ہے۔حضرات متقدمین کے نزدیک شیعہ کا اور مفہوم ہےاور حضرات متاخرین کے نزدیک اور ہے۔‘‘[4]
Flag Counter