Maktaba Wahhabi

100 - 135
ثابت بإسناده مثله موقوفا ‘‘[1] یعنی : یہ روایت ابوایوب رضی اللہ عنہ سے موقوفاً بھی مروی ہے،یحییٰ بن سعید نےاسے عمر بن ثابت سے اسی سند کے ساتھ موقوف بیان کیا ہے۔ درحقیت صاحب استذکار نےاس روایت کے موقوف اور مرفوع ہونے کا تو ذکر کیا ہے،لیکن یہ نہیں کہا کہ یہ اضطراب ہے۔دوسرے لفظوں میں یوں کہئے کہ وہ یہ بیان کررہے ہیں کہ یہ روایت مرفوعاً اور موقوفاًدونوں طرح ثابت ہے۔مگر مفتی صاحب نے صاحب استذکار پر بہت بڑا بہتان باندھتے ہوئےاستذکار کا حوالہ دے کر گویا یہ ثابت کیا کہ انہوں نے اس حدیث کا مضطرب ہونا ثابت کیاہے۔حالانکہ یہ حقیقت کے بالکل خلاف ہے۔ ثانیاً:اگر اسے مضطرب مان بھی لیا جائے تو ترجیح بھی ممکن ہے یعنی عمر بن ثابت سے اس روایت کو چار شاگردوں نے مرفوعاً بیان کیاہے اور ایک نے موقوف ۔اب میرا مفتی صاحب سے سوال ہے کہ اگر انہوں نے اصول حدیث پڑھے ہیں تو اب ایک طرف چار راوی جو مرفوع بیان کررہے ہیں اور ایک طرف ایک ! کیا چار کی بات راجح نہیں ؟!واضح سی بات ہے کہ چار راویوں کی روایت کا مرفوع ہونا راجح ہے پھر مزید یہ کہ دیگر مرفوع شواہد بھی موجود ہوں تو پھر تو اس کا مرفوع ہونا اور زیادہ قوی ہوجاتا ہے۔ اعتراض :موصوف فتوحات مکیہ کے حوالے سےروایت کے متن کو منکر کہتے ہیں ۔[2] جواب: اولاً:جمہور اہل علم کے مقابلے میں ابن عربی کی بات کی کوئی حیثیت نہیں ۔اور اہل علم میں سے کسی نے بھی اس حدیث کو منکر قرار نہیں دیا۔ ثانیاً:اس روایت کے متن کو منکر قرار دینے کی وجہ یہ بتائی گئی کہ ایام سارے مذکر ہوتے ہیں لہذا اس حدیث میں ستاً کا لفظ آیا ہے جبکہ ستۃ آنا چاہئے ۔لہذا یہ حدیث متناًمنکر ہے۔ جواب:امام نووی رحمہ اللہ نے اس اشکال کا جواب دیا ہے ۔کہ عدد کا معدود جب محذوف ہوتو ایسا جائز
Flag Counter