Maktaba Wahhabi

101 - 135
ہے۔امام نووی رحمہ اللہ نے اہل لغت کے حوالے سے بھی اس کی مثال دی ہے۔اور دیگر شارحین نے بھی۔ لہذا اس بنیاد پر حدیث کے متن کو منکر قرار دینا عجیب سے عجیب تر ہے۔ مفتی زرولی کے عذر لنگ: موصوف حدیث کا انکار کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ واضح رہے کہ ثواب کے لئے ہمیشہ ایسے اعمال اور اجور ذکر کئے جاتے ہیں جو شرعاً محمود ہیں جیسے جامع ترمذی میں ہے کہ جس نے فجر کی نماز جماعت سے پڑھی پھر بیٹھ کر ذکر کرتا رہا یہاں تک کہ سورج نکلا اور اس نے دو رکعت پڑھیں تو اس کو حج اور عمرہ کا ثواب ملے گا۔ حج و عمرہ باعث اجر افعال ہیں ۔ا س لئے وہ ثواب میں ذکر کئے گئے ۔‘‘[1] پھر لکھتے ہیں : ’’یا دوسری روایت جو معروف عند اصحاب السنن ہے کما فی البخاری کہ سورۂ اخلاص تین مرتبہ پڑھنے سےایک قرآن کا ثواب ملتا ہے۔تو چونکہ قرآن کریم پورا کرناباعث اجر عظیم ہے اس لئے بطور ثواب کے ذکر کیا گیا۔‘‘[2] جواب : ہمارے نزدیک مفتی صاحب کی یہ دونوں باتیں عذر لنگ سے کم نہیں ۔موصوف کا پہلا قاعدہ ثواب کے لئے ہمیشہ ایسے اعمال اور اجور ذکر کئے جاتے ہیں جو شرعاً محمود ہیں ۔مفتی صاحب کے اس قاعدے کی رو سے کتنے فضائل اور اعمال پر سوالیہ نشان لگ سکتا ہے؟چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں : پانچ نمازیں ،اجر میں پچاس کے برابر !! [3]کیا پچاس نمازیں فرض پڑھنا شرعاًمحمود ہیں ؟؟ مؤذن قیامت کے دن لمبے قد والے ہوں گے۔[4]کیا لمبا قد یا لمبی گردن شرعاً محمود ہے؟ حدیث میں ہے:جو عشاء اور فجر کی فضیلت جان لے تو اسے اگرگھٹنے کے بل چل کر آنا پڑے تو وہ
Flag Counter