یعنی:’’ ایسی حدیث جسے کئی قرائن نے گھیرا ہوا ہو۔اس کی کئی اقسام ہیں ۔ان میں سے ایک قسم یہ ہے کہ جسے امام بخاری اور امام مسلم رحمھما اللہ نے اپنی صحیح میں روایت کیاہو اور وہ روایت حد تواتر کو نہ پہنچے۔ایسی روایت کو کئی قرائن نے گھیرا ہوا ہے،امام بخاری اور امام مسلم رحمھما اللہ کی فن حدیث میں جلالت شان ،صحیح ا ور ضعیف احادیث کے مابین فرق کرنے میں سب سے مقدم ہیں ، اور ان کی کتابوں کو امت نے قبولیت کے ساتھ لیا ہے۔‘‘ امام ابو عبد اللہ الحمیدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’لم نجد من الأئمة الماضین من أفصح لنا فی جمیع ما جمعہ با الصحة الا ھذین الامامین‘‘[1] یعنی:امام بخاری اور امام مسلم رحمھما اللہ کے علاوہ ائمہ سلف میں سے ہم کسی کو نہیں پاتے کہ جس نے یہ کہا ہو کہ ہم نے جو کچھ بھی ذکر کیا ہے وہ صحیح ہے۔ امام ابن الصلاح رحمہ اللہ نے مستقل کتاب صیانۃ صحیح مسلم لکھی۔اور اہل علم کا اس میں اس کی صحت پر اجماع نقل کیا۔ امام نووی رحمہ اللہ نے امام جوینی کا ایک فتوی بھی نقل کیا ہےکہ ’’لو حلف انسان بطلاق امرأتہ أن مافی کتابی البخاری و مسلم مما حکما بصحتہ من قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم لما ألزمتہ الطلاق و لا حنثتہ لاجماع المسلمین علی صحتھما۔‘‘[2] یعنی:اگر کوئی شخص یہ قسم اٹھالیتا ہےکہ اگر صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جوبھی حدیث ہے وہ صحیح نہ ہوتو میری بیوی کو طلاق ہو۔تو یہ طلاق واقع نہیں ہوگی کیونکہ مسلمانوں کاان دونوں کی صحت پر اجماع ہے۔ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ: أما الصحیحان فقد اتفق المحدثون علی أن جمیع ما فیھما من المتصل المرفوع صحیح بالقطع و أنھما متواتران الی مصنفیھما و أنہ کل من یھون أمرھما فھو |