Maktaba Wahhabi

95 - 135
کرسکتے ہیں کہ یہاں امام حاکم رحمہ اللہ کی لفظ شیعہ سے مراد وہ راوی ہیں جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو دیگر صحابہ پرفوقیت دیتے ہیں ۔اور ثقاہت ،دیانت اور عقائدمیں وہ صحیح ہیں ۔لہذا مفتی صاحب کا یہ قول پیش کرنا نرا دھوکہ ہے۔ دوسرا دھوکہ یا۔۔۔: موصوف کا دوسرا دھوکہ یہ ہے کہ انہوں نے تدریب الراوی کا حوالہ دیا ہے ۔اور تدریب الراوی میں شیعہ راویوں کے حوالے سے امام سیوطی اور امام ذہبی رحمھما اللہ کا کلام چند ہی صفحات کے بعد ہے۔(یہ دونوں قول آگے آرہے ہیں ۔)جس کی موجودگی میں امام حاکم رحمہ اللہ کے اس مذکورہ بالا قول کو ذکر کرنے کی کوئی گنجائش نہیں رہتی ۔ تین نکاتی جواب : موصوف کے ان دو دھوکوں کے ذکر کے بعد طوالت سے بچتے ہوئے ہم مفتی صاحب کی صحیح مسلم کی اس ہرزہ سرائی کا تین نکات میں جواب دیتے ہیں ۔ ۱۔صحیح مسلم کو امت کی تلقی بالقبول حاصل ہے۔اس حوالے سے کئی ایک اہل علم کے اقوال پیش کئے جاسکتے ہیں ہم چند ایک پر اکتفاء کرتے ہیں : امام نووی رحمہ اللہ :’’اتفق العلماء رحمهم الله على أن أصح الكتب بعد القرآن العزيز الصحيحان البخاري ومسلم وتلقتهما الامة بالقبول‘‘[1] یعنی:علماء کا اس بات پر اتفاق ہےکہ قرآن مجید کے بعد صحیح ترین کتابیں صحیح بخاری اور صحیح مسلم ہیں ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ’’ الخبر المحتف بالقرائن ‘‘کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’و الخبر المحتف بالقرائن أنواع:منھا ما أخرجہ الشیخان فی صحیحیھمامما لم یبلغ حد المتواتر فانہ احتف بہ قرائن منھا :جلا لتھما فی ھذا الشأن۔و تقدیمھما فی تمییز الصحیح علی غیرھما۔و تلقی العلماء لکتابیھما بالقبول۔‘‘[2]
Flag Counter