ثالثاً:امام مسلم ،ابن حبان ، ابن خزیمہ، امام ترمذی رحمھم اللہ اور دیگر سے اس روایت کو صحیح قرار دیناثابت ہے۔ اعتراض: مفتی صاحب لکھتے ہیں : ’’ امام ترمذی نے بھی مدارالحدیث سعد بن سعید پر کلام کیا ہے۔چناچہ ملاحظہ ہو۔ و سعد ابن سعید ھو! اخو یحیی بن سعید الانصاری، و قد تکلم بعض اھل الحدیث فی سعد بن سعید من قبل حفظہ ‘‘[1] جواب : اولاً: امام ترمذی رحمہ اللہ نے ہی اس روایت کو حسن صحیح کہا ہےجوکہ اکثر نسخوں میں ہے ۔اور امام ترمذی رحمہ اللہ کا حسن کہنا آپ کو بھی مسلّم ہے۔جس کا واضح معنی یہ ہے کہ امام ترمذی رحمہ اللہ کے پیش نظر دیگر طرق بھی ہیں جن کی طرف اوپر اشارہ کردیا گیا ہے۔ ثانیاً:اس روایت کا مدارالسند سعد بن سعید کو کہنا قطعاً صحیح نہیں ۔کیونکہ ان کی مزید تین ثقہ راویوں نے متابعت کررکھی ہے۔کما مرّ ۔ اعتراض: موصوف شرح مشکل الآثار کے حوالے سے لکھتے ہیں :’’ابوجعفر الطحاوی رحمہ اللہ نے سعد بن سعید کی وجہ سے صحت حدیث کا انکار کیا ہے اور فرمایاکہ محدثین بھی اس کی وجہ سے اس حدیث سے اعراض کرچکے ہیں ۔‘‘[2] جواب:مفتی صاحب نے یہاں بڑی بددیانتی کا مظاہرہ کیا ہے۔کیونکہ ابوجعفر الطحاوی رحمہ اللہ نےمزید طرق کی طرف اشارہ بھی کیا ہے۔اور پھر حدیثِ ثوبان رضی اللہ عنہ وغیرہ بھی نقل کیں ۔اور مفتی صاحب نے یہ بددیانتی نادانستہ نہیں کی بلکہ قصداً کی ہے۔جیسا کہ ان کی اگلی ہی عبارت اس کی چغلی کھارہی ہے۔لکھتے ہیں :’’آگے کچھ طرق کے بارے میں امام ابوجعفر طحاوی رحمہ اللہ نے کچھ اظہار رائے فرمایا ہے۔مگر ان تمام روایات میں یا توعمرو بن ثابت ہے جسے امام مالک نے منکر اور غیر ثقہ اور ناقابل اعتماد |