Maktaba Wahhabi

85 - 135
میں زکوۃ استعمال کرنا جائز نہیں ، کیونکہ یہ زکوۃ کے آٹھ مصارف میں شامل نہیں ۔[1] چند ضروری وضاحتیں : (1)یہاں پر مجاہدین سے مراد وہ مجاہد ہیں جو صحیح منہج پر ہوں اور خالصتاً اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے جہاد کریں نہ کہ وہ جماعتیں اور ایسے نام نہاد مجاہد جو حکومت کی خاص ایجنسیوں کے ایجنڈے پر عمل کرنے کے لئے جہاد کا علم بلند کریں ، جن کے ہاں دوستی اور دشمنی کا معیار قرآن و حدیث اور توحید کے بجائے صرف شہرت اور مطلب براری ہو ، جن کا جہاد مشکوک ہو،اور جن کے مالی معاملات پر انگلیاں اٹھتی ہوں ۔ (2)جہاد سے مراد صرف جہاد بالسیف نہیں ہے ، بلکہ جہاد باللسان ، یعنی زبان کا جہاد اور قلم کا جہاد بھی اس میں شامل ہے، اور یہ جہاد قرآن وحدیث کے نصوص سے ثابت ہے ، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿ فَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَجَاهِدْهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا ﴾ [الفرقان: 52] ترجمہ:’’ پس آپ کافروں کا کہنا نہ مانیں اور قرآن کے ذریعے ان سے پوری طاقت سے بڑا جہاد کریں ۔‘‘ یہاں قرآن کے ذریعہ جہاد کاحکم دیا گیا ہے جو کہ یقیناًزبان ہی کے ذریعہ ہوسکتا ہے ، اور یہ سورۃ الفرقان کی آیت ہے اور سورۃ الفرقان مکی سورت ہے اور مکہ میں جہاد فرض نہیں ہوا تھا ، لہذا اس آیت میں تبلیغ دین ہی کو جہاد قرار دیا گیا ہے، اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے: ’’ جاهدوا المشركين بأموالكم وأنفسكم وألسنتكم‘‘ ترجمہ:’’ مشرکین سے جہاد کرو اپنی جانوں کے ساتھ اور مال کے ساتھ اور زبانوں کے ساتھ۔‘‘[2] لہٰذا ایسے ادارے ، مراکز اور افراد جو معاشرہ میں انسانوں کی رہنمائی اور شرک وبدعت کے خلاف جہاد میں مصروف عمل ہوں ان کے ساتھ زکوۃ کے مال سے تعاون کیا جاسکتا ہے ، بلکہ موجودہ دور میں یہ جہاد بہت اہمیت کاحامل ہے کیونکہ حالیہ زمانہ میں قوموں کو اسلحہ کے زور سے فتح کرنے کے بجائے نظریات اور افکار کی جنگ لڑی جاتی ہے، اور اس کے نتائج آج ہمیں اپنے معاشرہ پر بھی بھرپور طریقہ سے نظر
Flag Counter