Maktaba Wahhabi

84 - 135
الجند جس میں جہاد سے حاصل کردہ مال رکھا جاتا، اور دیگر دیوان بھی قائم تھے۔ اس تقسیم سے صاف ظاہر ہے کہ عمررضی اللہ عنہ نے زکوۃ کے مصارف کی خصوصی تقسیم کی وجہ سے اس کا دیوان الگ قائم کیا تھا ، لہٰذا یہ سمجھنا کہ عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک ’’فی سبیل اللہ ‘‘ کا معنی عام تھا اور وہ اسے ہر نیکی کے کام پر محمول کرتے تھے، غلط ہے۔ تیسری بات : یہ ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں بیت المال سے تمام مسلمانوں کو بلا تفریق مخصوص ماہانہ وظیفہ دیا جاتا تھا، اور ان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت اور مالدار مسلمان بھی شامل تھے، جبکہ مالدار مسلمان اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت کے لئے زکوۃ لینا حرام ہے۔ یہاں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ زکوۃ کا مال تو امیر المومنین کے پاس ہوتا تھا پھر وہ آگے اسے مسلمانوں کو ہدیہ کرتے تھے اور اہل بیت کے لئے ہدیہ حرام نہیں جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عائشہرضی اللہ عنہاکی آزاد کردہ لونڈی بریرہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں فرمایا تھا کہ اسے جو صدقہ ملتا ہے وہ اس کے لئے صدقہ ہے ہمارے لئے ہدیہ ہے ۔تو اس کاجواب یہ ہے کہ امیر المومنین یا خلیفہ زکوۃ کے مال کا مالک نہیں ہوتا بلکہ وہ مال اس کے پاس بطور امانت ہوتا ہے اور اسے وہیں خرچ کرنا ہوتا ہے جو اس کے جائز مصارف ہیں ، جبکہ بریرہ رضی اللہ عنہا کو جو صدقہ ملتا تھا وہ ان کی ملکیت میں آجاتا تھا پھر وہ اسے جہاں چاہے خرچ کریں ۔لہٰذا اہل بیت کو ملنے والا مال زکوۃ کا ہرگز نہیں ہوسکتا تو معلوم ہوا کہ زکوۃ کا مال یقیناً دیگر اموال سے الگ رکھا جاتا تھا اور اسے اس کے مخصوص مصارف ہی میں خرچ کیا جاتاتھا۔ خلاصہ کلام اس مسئلہ میں راجح قول پہلا قول ہے ، کہ آیت زکوۃ میں ’’فی سبیل اللہ‘‘سے مراد خاص معنی ہے اور وہ ہے مجاہدین ۔لہذامساجد و مدارس کی تعمیر ، ہسپتال اور مریضوں کے علاج و معالجہ ، سڑکوں کی تعمیر اور دیگر فلاحی کاموں میں جن کا ذکر زکوۃ کے مصارف میں نہیں زکوۃ استعمال کرنا جائز نہیں ۔ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں : مساجد کی تعمیر اور مدارس کی تعمیر اور اسی طرح سڑکوں ، پلوں وغیرہ کی تعمیر
Flag Counter