Maktaba Wahhabi

83 - 135
جواب: پہلی بات: یہ ہے کہ قاعدہ اور اصل تو یہ ہے کہ زکوۃ کا مال چند مخصوص مصا رف ہی میں استعمال کیا جائیگا، اور عمر رضی اللہ عنہ یقیناً اس قاعدہ سے لاعلم نہیں ہونگے، اور زکوۃ کا مال انہی مصارف میں خرچ کریں گے جن کے لئے وہ مخصوص کیا گیا ہے، البتہ اس کے برعکس یہ بات ثابت کرنے کی ضرورت ہے کہعمر رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی کی تعمیر میں زکوۃ ہی کا مال خرچ کیا ہے؟؟۔ دوسری بات : یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں بیت المال نہیں تھا بلکہ جو بھی مال آتا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے فوراً تقسیم فرمادیتے، بیت المال کا انشاء سب سے پہلے عمر رضی اللہ عنہ نے ہی کیا تھا ، اور اس کی ضرورت اس وقت محسوس کی گئی جب دارالخلافہ مدینہ میں مال کی کثرت ہوگئی ، اور عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں وہ ذرائع جن سے مال آتا تھا وہ بھی زیادہ ہوگئے تھے ، عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں بیت المال میں چھ ذرائع سے مال آتا تھا: (۱) زکوۃ: (۲) مال غنیمت: وہ مال جو جنگ کے ذریعہ حاصل ہو۔ (۳) مال فئ:وہ مال جو جہاد میں بغیر جنگ کے حاصل ہو۔ (۴) خراج: وہ مال جو مسلمان ان کفار سے لیتے تھے جو مسلمانوں کے علاقہ میں رہتے اور کھیتی باڑی کرتے تھے ، ان سے ایک مناسب نسبت طے کرلی جاتی جسے وہ ہر فصل میں سے ادا کرتے۔ (۵) جزیہ: جو مسلمانوں کے علاقہ میں رہنے والے ایسے کفار سے لیا جاتا جو کھیتی باڑی کے علاوہ کسی اور پیشہ سے منسلک ہوتے ۔ (۶) ٹیکس:ایسے کفار سے لیا جاتا جو دارالکفر سے دارالاسلام میں تجارت کی غرض سے آتے تھے۔تو یہ کہنا درست نہیں کہ بیت المال میں صرف زکوۃ کا ہی مال آتا تھا، بلکہ زکوۃ کی نسبت دیگر ذرائع سے آنے والا مال زیادہ تھا، اور یہ بات بھی ثابت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے بیت المال میں ہر ایک کے الگ دیوان قائم کئے تھے ، جیسا کہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایہ والنہایہ میں تفصیل سے ذکر کیا ہےکہ بیت المال میں کئی دیوان تھے مثلاًدیوان الزکوۃ جس میں صرف زکوۃ کا مال رکھا جاتا ، اسی طرح دیوان
Flag Counter