Maktaba Wahhabi

82 - 135
اہلحدیث علماء میں سب سے پہلے یہ قول امام صنعانی رحمہ اللہ نے سبل السلام میں اختیار کیا، پھر صدیق حسن خان رحمہ اللہ نے روضۃ الندیہ میں ،ان کے بعد یہ قول کئی علماء نے اختیار کیا ، لیکن اکثر علماء نے اسے مرجوح قرار دیا ، جیسا کہ عبیدالرحمن مبارکپوری نے مرعاۃ المفاتیح میں اس پر سخت تنقید کی ہے اور اس قول کو انتہائی ضعیف قرار دیا ہے۔[1] دلائل اور ان کا تجزیہ (1)’’فی سبیل اللہ ‘‘ عام ہے ، اور اسے خاص معنی پر محمول کرنے کے لئے دلیل کی ضرورت ہے، جو کہ اس آیت میں موجود نہیں ۔ جواب: جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے کہ ’’فی سبیل اللہ ‘‘ جب بھی مطلقاًآتا ہے تو اس سے مراد جہاد ہی ہوتا ہے ، اور پھر آیت میں ’’انما‘‘ کی قید اور حرف ’’و‘‘ کا ستعمال بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ’’فی سبیل اللہ ‘‘ سے مراد خاص معنی ہے نہ کہ عام ۔ (2)وہ تمام احادیث جن سے دوسرے قول کے قائلین نے استدلال لیا تھا۔ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ فی سبیل اللہ ایک چیز کے لئے خاص نہیں بلکہ اس میں اور اعمال بھی آتے ہیں ۔ جواب: یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ وہ احادیث صحیح ثابت نہیں لہٰذا ان سے استدلال لینا جائز نہیں ۔ اگر ان احادیث کو صحیح مان بھی لیا جائے تو ان سےیہی ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام ’’فی سبیل اللہ ‘‘ کو ایک خاص معنی پر محمول کرتے تھے، اسی لئے صحابہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آکر اس بارے میں سوال کیا ، اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف حج کو مزید اس مصرف میں شامل کیا۔ (3)عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیت المال سے مسجد کی تعمیر میں رقم خرچ کی ، اور بیت المال میں زکوۃ کا ہی مال جمع ہوتا تھا، اور صحابہ کرام نے عمر رضی اللہ عنہ کی مخالفت نہیں کی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ’’فی سبیل اللہ ‘‘ تمام بھلائی کے کاموں کو شامل ہے۔
Flag Counter