Maktaba Wahhabi

79 - 135
(۶) ابن حزم aفرماتے ہیں : ’’جہاں تک ’’سبیل اللہ ‘‘ کا تعلق ہے تو اس سے مراد یقیناً جہاد ہی ہے۔[1] دلائل (1)’’فی سبیل اللہ ‘‘ کا لفظ جب نصوص قرآن وحدیث میں مطلقاًآئے تو اس سے مراد جہاد ہوتا ہے، گویا کہ یہ لفظ اسی کے لئے خاص ہوگیا ہے۔ابن اثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ سبیل اللہ ویسے ہر اس عمل کو کہتے ہیں جو اللہ تعالی کے قریب کردے ، لیکن جب یہ مطلقاًآئے تو اس کا معنی جہاد ہی ہوتا ہے ، حتی کہ جہاد کے لئے کثرت استعمال کی وجہ سے گویا یہ اسی کے لئے خاص ہوکر رہ گیا ہے۔[2] (2)اللہ تعالی نے آیت کی ابتدا میں لفظ ’’إنما‘‘ یعنی ’’فقط‘‘ کہہ کر یہ بتا یا کہ یہ زکوۃ انہی آٹھ مصارف میں محدود رہے گی، اگر یہاں ’’فی سبیل اللہ ‘‘ سے مراد ہر قسم کی نیکی اور فلاح کاکام ہوتو اس قید کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ (3)عربی لغت کا قاعدہ ہے کہ ’’عطف مغایرت چاہتا ہے ‘‘ یعنی ان آٹھ مصارف کے درمیان جو حرف ’’و‘‘ کا استعمال ہوا ہے اسے عربی گرامر میں ’’حرف عطف ‘‘ کہتے ہیں ، اور حرف عطف دو الگ الگ چیزوں کے درمیان فرق کے لئے استعمال ہوتا ہے،یہاں پر اس کا استعمال یہ بتاتا ہے کہ سارے مصارف ایک دوسرے سے الگ ہیں ، ’’و ‘‘ کا معنی ہے ’’اور‘‘ جیسا کہ اردو میں کہا جاتا ہے :’’ابو بکر اور عمر آئے‘‘ تو لفظ ’’اور‘‘ کے ذریعہ دو الگ الگ چیزوں کے درمیان فاصلہ کیا جاتا ہے ، یہی استعمال ’’و‘‘ کا عربی میں ہے۔اللہ تعالی نے آٹھوں مصارف کے درمیان ’’و‘‘ ذکر کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر مصرف دوسرے سے مختلف ہے، فقراء کا مصرف الگ ہے ، مساکین کا الگ ہے ، تالیف قلبی کا الگ ، اسی طرح ان سب مصارف کا ’’فی سبیل اللہ ‘‘ کے مصرف سے کوئی تعلق نہیں ، اگر ’’فی سبیل اللہ‘‘ کا معنی ہر نیکی کر لیا جائے تو فقرا ، مساکین کو دینا بھی نیکی ہے پھر اللہ تعالی نے ان کے درمیان ’’و‘‘ کا استعمال کیوں کیا ہے؟تو معلوم ہوا کہ ’’فی سبیل اللہ ‘‘ ایک الگ مصرف ہے اور وہ مجاہدین ہیں ۔ (4)ایک صحیح حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : ’’مالدار شخص کے لئے پانچ قسم کے حالات کے علاوہ
Flag Counter