Maktaba Wahhabi

78 - 135
یہ چند کبار مفسرین کے اقوال ہیں ، اور ان کے علاوہ بھی سلف و خلف کے تمام مفسرین کا یہی قول ہے۔ علما ء کے اقوال : (۱) امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’اس کی زکوۃ ادا نہیں ہوگی جو اسے میت کی تکفین میں دیدے ، کیونکہ زکوۃ صرف فقراء اور مساکین اور ان افراد کے لئے ہے جن کا اللہ تعالی نے قرآ ن میں ذکر کیا ہے ، میت کے لئے اور مساجد کی تعمیر کے لئے نہیں ہے۔‘‘[1] (۲) ابن ہبیرہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ چاروں ائمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ زکوۃ کو مساجد کی تعمیر اور میت کی تکفین وغیرہ کے لئے استعمال نہیں کیا جاسکتا ، اگرچہ یہ بھی نیکی ہے ، لیکن زکوۃ کے مصارف پہلے سے متعین ہیں ۔[2] (۳)ابن قدامہ المقدسی فرماتے ہیں :’’اللہ تعالی کے ذکر کردہ مصارف کے علاوہ زکوۃ کو کسی اور مصرف جیسے مساجد کی تعمیر ، پلوں اور سڑکوں کی درستگی اور کنویں کی کھدائی میت کی تکفین وغیرہ کے لئے استعمال کرنا جائز نہیں ۔امام ابو داود رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے امام احمدرحمہ اللہ سے سوال کیا کہ :’’کیا زکوۃ کو میت کی تکفین و تجہیز کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے ؟ تو امام احمد نے فرمایا :’’نہیں ، اور نہ ہی میت کا قرض اس میں سے ادا کیا جاسکتا ہے۔‘‘[3] (۴) ابو حنیفہ رحمہ اللہ : ’’فی سبیل اللہ ‘‘ سے مراد ایسا غازی ہے جو غنی نہ ہو۔[4] (۵) ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’جہاں تک ’’فی سبیل اللہ ‘‘ کا تعلق ہے تو اکثر علماء اس بات پر متفق ہیں کہ یہ مجاہد کے لئے خاص ہے ، چاہے وہ امیر ہو یا غریب، اور بعض کا یہ قول ہے کہ یہ صرف غریب مجاہد کے لئے خاص ہے۔[5]
Flag Counter