مفسرین کے اقوال: ٭ استاد المفسرین ابن جریر طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’جہاں تک اللہ تعالی کے اس فرمان ’’فی سبیل اللہ‘‘ کا تعلق ہے تو اس سے مراد ہے کہ اللہ تعالی کے دین اور اس کی شریعت کی نصرت کے لئے جو قتال کیا جاتا ہے جو کفار سے جہاد ہے اس کے لئے خرچ کرنا۔[1] ٭ ابن عطیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’سبیل اللہ ‘‘ سے مراد ہے کہ یہ مال مجاہد کو دیا جائے چاہے وہ مالدار ہی کیوں نہ ہو۔[2] ٭ ابو الحسن الواحدی صاحب تفسیر ’’الوجیز‘‘ لکھتے ہیں : ’’فی سبیل اللہ ‘‘ یعنی مجاہدین اور سرحدوں کی رکھوالی کرنے والے۔[3] ٭ حسین بن مسعود البغوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :’’ فی سبیل اللہ ‘‘ سے اللہ تعالی کی مراد مجاہدین ہیں ، لہذا انہیں بھی اس صدقہ میں حصہ دینا چاہئے۔[4] ٭ اما م قرطبی فرماتے ہیں :’’ اس سے مراد غازی اور سرحدوں کی رکھوالی کرنے والے مجاہدین ہیں ، اور یہی اکثر اہل علم کا قول ہے۔‘‘[5] ٭ تاج المفسرین امام ابن کثیر رحمہ اللہ بھی اسی موقف کی تائید میں لکھتے ہیں کہ : ’’ اس سے مراد وہ غازی ہیں جن کے لئے باقاعدہ تنخواہ مقرر نہ ہو۔‘‘[6] ٭ امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ اس سے مراد غازی اور سرحدوں کی رکھوالی کرنے والے مجاہدین ہیں ۔‘‘[7] ٭ عبدالرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ساتواں مصرف: اور یہ اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے ہیں ، اور یہ وہ مجاہدین ہیں جن کے لئے باقاعدہ تنخواہیں مقرر نہ ہوں ۔‘‘[8] |