کیونکہ اس میں قرضہ پر ایک مخصوص منافع لیا جاتا ہے جو کہ سود ہے، لیکن علماء کے نزدیک سود کو نکال کر بانڈز کی اصل رقم پر زکوۃ ادا کرنا واجب ہے جب وہ نصاب تک پہنچ جائے ، کیونکہ ایسا قرضہ جس کا حصول متوقع ہو اس کو زکوۃ کے نصاب میں شمار کیا جائےگا۔ زرعی پیداوار : اس سے مراد وہ اجناس ہیں جنہیں کھایا جاتا ہو اور ذخیرہ کیا جاتا ہو۔ لہذا ایسی اجناس جو کھائی نہ جاتی ہوں جیسے کپاس اور وہ اجناس جنہیں ذخیرہ نہ کیا جاسکتا ہو ، جیسے سبزیاں وغیرہ ، ان پر زکوۃ نہیں ، اسی طرح پھلوں پر بھی زکوۃ نہیں ہے، البتہ جب ان پھلوں کو یا سبزیوں وغیرہ کو بیچا جائے اور اس سے حاصل کردہ رقم نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر سال گزر جائے تو اس پر زکوۃ واجب ہوگی۔ زرعی پیداوار کا نصاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمایا کہ :’’ پانچ وسق سے کم پر زکوۃ نہیں ۔‘‘ وسق ایک پیمانہ ہے جس کا وزن تقریبا 56 . 130کلو ہے ، اور پانچ وسق 652 کلو بنتے ہیں ۔ جن اجناس پر زکوۃ ہے جب وہ نصاب تک پہنچ جائیں اوران کی سیرابی میں اگر کسان کا خرچہ نہیں آتا یعنی وہ بارش یا نہروں کے ذریعہ سیراب ہوتی ہوں تو ان پر عشر یعنی دس (۱۰) فیصد زکوۃ ہے ، اور جن کی سیرابی میں کسان کا خرچہ ہو جیسے ٹیوب ویل وغیرہ تو اس پر نصف العشر یعنی پانچ (۵) فیصد زکوۃ ہے۔ مویشی: یعنی اونٹ ، گائے ، اور بکریاں ۔ ان کے علاوہ باقی جانوروں پر زکوۃ نہیں ، البتہ جب ان کی تجارت کی جائے تو ان پر بھی زکوۃ ہے۔ مویشیوں پر زکوۃ اس وقت واجب ہوتی ہے جب وہ خود چرتے ہوں یا ان کے چارے پر مالک کا خرچہ نہ ہو۔مویشیوں میں سے ہر جنس کی زکوۃ الگ الگ ہے جس کی تفصیل کتب احادیث میں دیکھی جاسکتی ہے۔ وہ مویشی جنہیں اس غرض سے رکھا جائے کہ ان کا دودھ نکال کر بیچا جائے تو ان جانوروں کے عین پر زکوۃ نہیں بلکہ ان کی دودھ کی تجارت سے حاصل کردہ رقم پر زکوۃ ہے جب وہ نصاب کو پہنچ جائے۔اسی طرح وہ جانور جنہیں بیچنے کی غرض سے پالا جائے تو ان کے عین پر زکوۃ نہیں بلکہ ان کی تجارت سے حاصل کردہ رقم پر زکوۃ ہے۔ |