سونے کا نصاب: علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’سونے پر اس وقت تک زکوۃ نہیں جب تک تمہارے پاس بیس (۲۰) دینار نہ ہوں ، جب تمہارے پاس بیس دینار ہوں تو اس میں سے آدھا دینار زکوۃ ادا کرو۔‘‘[1] بیس دینار کا وزن پچاسی (۸۵) گرام ہے، جو کہ تقریباًساڑھے سات تولہ بنتے ہیں ۔ چاندی کا نصاب: ابو سعید خدری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پانچ اوقیہ سے کم (چاندی ) پر زکوۃ نہیں ۔‘‘[2] ایک اوقیہ چالیس درہم کے برابر ہے ، تو پانچ اوقیہ دو سو درہم کے برابر ہیں ، اور دو سو درہم کا وزن پانچ سو پچانوے (۵۹۵) گرام ہے جو کہ تقریبا پچاس تولہ بنتے ہیں ۔ زیورات کی زکوۃ: زیورات کی زکوۃ کے حوالہ سے علماء میں اختلاف ہے ، صحابہ کرام میں سے عبداللہ بن عمر ، جابر بن عبداللہ، انس بن مالک ، عائشہ صدیقہ ، اسماء بنت ابی بکر ، جبکہ تابعین کی ایک بڑی جماعت جن میں سے سعید بن المسیب ، سعید بن جبیر ، ابن سیرین ، زہری رحمہم اللہ ، جبکہ ائمہ اربعہ میں سے امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ کے نزدیک وہ زیورات جو عورت کے اپنےاستعمال کے ہوں ان پر زکوۃ نہیں ہے، جبکہ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور ائمہ میں سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک زیورات پر زکوٰۃ واجب ہے ۔ موجودہ دور کے اکثر علماء کرام کا یہی قول ہے کہ احتیاط کا تقاضہ ہے کہ زیورات کی زکوۃ ادا کی جائے جب وہ نصاب کو پہنچ جائیں یعنی ساڑھے سات تولہ سونا ہو یا پچاس تولہ چاندی ہو اور ان پر سال گزر |