نوٹ:بعض لوگوں کا سنن ابی داؤد کی ایک ضعیف روایت (جس نے جان بوجھ کر روزہ چھوڑا وہ سارا زمانہ روزہ رکھتا رہے اس کی قضاء نہیں ۔) کی بنیاد پر یہ کہنا کہ جان بوجھ کر روزہ توڑنے والے پر کسی قسم کی قضاء نہیں ہے۔یہ مؤقف حدیث کے ضعیف ہونے کی وجہ سے غلط ہے۔ مزید ان مسائل سے ایک اور مسئلہ سمجھنا آسان ہوگیا اور وہ یہ ہے کہ حدیث میں موجود الفاظ میں ایک ایک لفظ بہت ہی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔اور اس طرح سے مسائل کا استنباط کرنا بہت ہی آسان ہوجاتا ہے۔اور یہی منہجِ سلف اور فہم ِمحدثین ہے۔ عورتوں کا مسجد میں اعتکاف کرنا ’’خواتین کے اعتکاف سےمتعلق مذکورہ تحریر ایک حنفی مفتی صاحب کے فتویٰ کے جواب میں ہے ، ’’البیان‘‘ نے رمضان کی مناسبت اور قارئین کے افادہ کے لئے صرف اس فتویٰ کے جواب کا حصہ ہدیہ قارئین کیا ہے۔ ‘‘ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں مسجد میں ایک جگہ کو عبادت کے لئے مختص کرنا اعتکاف کہلاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :﴿ وَلَا تُـبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عٰكِفُوْنَ ۙ فِي الْمَسٰجِدِ ۭ﴾ (البقرۃ :182) یعنی اور اگر تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو تو پھر بیویوں سے مباشرت نہ کرو ۔ آیت مبارکہ اس باب میں نص صریح ہے کہ مسجد کے علاوہ اعتکاف درست نہیں ۔چاہے اعتکاف کرنے والامرد ہو یا عورت ، مسجد میں اعتکاف کرے۔ اس بارےمیں فقھاء و محدثین نے مختلف انداز سے مسئلہ کی وضاحت کی ہے۔جیساکہ صحیح بخاری میں امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ باب قائم کیا ہے۔باب اعتکاف المستحاضۃ اور یہ روایت لائے : عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:’’اعْتَكَفَتْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ امْرَأَةٌ مِنْ أَزْوَاجِهِ مُسْتَحَاضَةٌ۔‘‘[1] یعنی :سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج میں سے ایک بیوی جو کہ |