چاہتا کہ مسلمان اس کتاب سے براہِ راست فائدہ حاصل کرنے کے قابل بنے اور نہ ہی کفارِ عالم اور نہ ہی علمائے سوء ایسا چاہتے ہیں کیونکہ اس طرح طاغوت کے ائمہ اور ان کے نمائندوں کی دکانیں بند ہوجائیں گی اور مسلمان کا تعلق اللہ تعالیٰ سے براہِ راست قائم ہوجائیگا۔کیونکہ جب قرآنِ کریم پر تدبر کریں گے توعام آدمی کو معلوم ہوجائے گاکہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم السلام کو کس بات کی تبلیغ کیلئے مبعوث فرمایا؟ یعنی تبلیغِ عبادات پہلے ہے یا تبلیغِ عقیدۂ توحید ؟ مزید یہ کہ جہاد بالسیف کب ، کس لئے، کس انداز سے اور کس کے خلاف ؟ اور اولین جہاد کیا ہے؟ یعنی فضائلِ جہاد کے ساتھ مسائلِ جہاد سے بھی آگاہی ہوگی۔ اسی طرح فرقوں میں بٹ کر رہنا اللہ تعا لیٰ کے نزدیک پسندیدہ ہے یا متحد ہوکر رہنا؟ اسی طرح آباواجداد کی اندھی پیروی کی سوچ صحیح ہے یا صرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ضروری ہے ؟ اس طرح بزرگوں ، پیروں اور مشائخ میں اللہ تعالیٰ کی صفات کوشامل کرنا صحیح ہے یا صرف اللہ تعالیٰ ہی کو اس کی صفات کا حقدار سمجھنا لازمی ہے؟ اور یہ بھی واضح ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ کو براہِ راست سوال کرنا پسند ہے یا کوئی واسطہ اختیار کرنا ضروری ہے؟ یعنی دل کا حال جاننے والے ، اور پکارنے والے کی دعا کو قبول کرنے والے مہربان رب تک پہنچنے کیلئے واسطے اور وسیلے کے لمبے راستے کا کیا منطقی جواز ہے؟ اگر سارے انسان یقین کی حد تک صرف اس نکتے کو سمجھ لیں کہ اکیلا اللہ براہِ راست ، ہمہ وقت، ہر انسان کی ہر قسم کی مدد کیلئے موجود اور کافی ہے تو کوئی انسان اپنی حاجت روائی کیلئے کسی غیر اللہ پر ایک لمحہ اور ایک پیسہ بھی خرچ نہ کرے اور اس کے نتیجے میں تمام زندہ اور فوت شدہ نام نہادمشکل کشاؤں اور حاجت رواؤں کے کارخانے از خود بند ہوجائیں گے اور مندی کی وجہ سے یہ سارا کاروبار ٹھپ ہوجائے گا کیونکہ کون احمق ہوگا جو اکیلے اللہ سے سب کچھ حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہوتے ہوئے بھی در در کی ٹھوکریں کھائے گا؟ مختصر یہ کہ قرآن کریم ہر معاملے بشمول جہاد، تبلیغِ دین، نظامِ خلافت کا اطلاق، نظامِ معاشرت و معیشت، غرض تمام شعبوں کیلئے رہنما اصول واضح کرتا ہے یوں کوئی بھی مسئلہ ، مسئلہ نہیں رہتا اور انسانی شریعت سازی کی ضرورت نہیں رہتی۔ یعنی مسلمان کی نظریاتی وعملی رہنمائی بذریعہ کتاب اللہ اور اسوۂ حسنہ کے ذریعے کردی گئی ہے ۔ ان دو بنیادی ذرائع کا ذکر قرآنِ مجید میں ہی بیان کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿ وَ نَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْئٍ وَّ ھُدًی وَّ رَحْمَۃً وَّ بُشْرٰی لِلْمُسْلِمِیْنَ ﴾ |