کرکے فرمایا : ﴿ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّــلْمُتَوَسِّمِیْنَ ﴾(الحجر15آیت75) ’’بلاشبہ اس میں گہری نظر سے غور و فکر کرنے والوں کیلئے نشانیاں ہیں ۔‘‘ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 164 اور اٰل عمران کی آخری آیات کے حوالے سے واضح کرتے ہوئے فرمایا : اس شخص پر افسوس ہے جو ان آیات کو پڑھ کر گذر جاتا ہے لیکن غور نہیں کرتا۔[1] اس اصول کو قرآنِ کریم میں ایک اور انداز سے اس طرح بیان کیا گیا ہے ۔ ﴿ قُلْ اِنَّمَآ اَعِظُکُمْ بِوَاحِدَۃٍ اَنْ تَقُوْمُوْا لِلّٰہِ مَثْنٰی وَ فُرَادٰی ثُمَّ تَتَفَکَّرُوْا﴾(سبا 34آیت 46) کہہ دیجئے کہ میں تمہیں صرف ایک ہی بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ تم اللہ کے واسطے دو دو ساتھ مل کر یا تنہا تنہا کھڑے ہو کر اور پھر غوروفکر کرو۔ تدبرِ قرآن کس قدر اہم ہے؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگا یا جاسکتا ہے کہ کفارِ مکہ اہل زبان ہونے کی وجہ سے سماعتِ قرآن کی ہی مزاحمت کرتے تھے۔ جیسا کہ فرمانِ الہٰی ہے: ﴿ وَ قَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَ الْغَوْا فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تَغْلِبُوْنَ ﴾ (ترجمہ) کافر(اپنے ساتھیوں سے) کہتے ہیں کہ اس قرآن (کی تلاوت) نہ سنو بلکہ(دورانِ تلاوت) شور و غل کرو شاید کہ تم (مسلمانوں پر)غالب آجاؤ ۔ (حم السجدہ41 آیت26) کیونکہ اہل مکہ اہل زبان تھے اس لئے ان کیلئے تدبرِ قرآن سماعتِ قرآن کے ذریعہ ممکن تھااور آج کے علمائے سوء قرآنِ کریم کی تلاوت و سماعت سے تو نہیں روکتے مگر ترجمہ و تفسیر کی مزاحمت کرتے ہیں تو بتائیے کہ تدبرو اتباعِ قرآن کیسے ممکن ہے؟۔ ان دونوں گروہوں کے مقاصد ملتے جلتے ہیں اور زندگی یوں ہی گذر جاتی ہے۔ تدبرِ قرآن سے دوری کی وجوہات سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر مسلمان قرآنِ کریم سے اس قدر دور کیوں ہیں ؟ و جہ یہ ہے کہ شیطان نہیں |