موجودہ زمانے میں قرآن کریم سے کس قسم کا تعلق ہے؟ غور کیجئے ! کہ تدبرِ قرآن کے برعکس عملاً ہوتا کیا ہے؟30-40سالہ پرانے حفاظِ قرآن سمیت ہم میں سے اکثر لوگ زندگی بھر صرف تلاوت یا سماعتِ قرآن کریم پر ہی اکتفا کرتے ہیں ۔ اندازِ قرأت ، مخارج اور خوش الحانی کو نزولِ قرآن کے مقصد پر فوقیت دیدی گئی ہے اور سارا زور انہی نکات پر دیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں مندرجہ ذیل حدیثِ رسول کافی اہمیت کی حامل ہے۔ سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک دن قرآن مجیدکی تلاوت کر رہے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا کہ الحمد للہ ، اللہ کی کتاب ایک ہی ہے اور تم میں سرخ ،سفید اور سیاہ قسم کے لوگ اسے پڑھنے والے ہیں ، قرآن پڑھا کرو بعد میں ایسے لوگ اسے پڑھیں گے جو اس کے حروف کو تیر کی طرح سیدھا کرتے ہوئے پڑھیں گے(صرف مخارج پر زور دیں گے) اور اپنا اجر دنیا ہی میں طلب کریں گے آخرت کیلئے نہیں ۔(ابوداؤد) ویسے بھی تلاوت پر ثواب کا پہلو یعنی ہر حرف پر دس نیکیاں تو رب کریم کی عطائے بیش بہا کا مظہر ہے مگر صرف ثواب کی خاطر قرآن پاک کا پڑھنا یا سننا اورپھر اسی سوچ کے تحت ہی ساری زندگی گذاردینا اس نعمت کی ناشکری اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ ہے اور ایسا ہی ہے جیسے کسی چیز سے ادھورا فائدہ اٹھایا جائے۔ اسی طرح بعض افراد قرآن مجید کو ترجمے کے ساتھ پڑھنے کو اپنا حتمی مقصد بناتے ہیں یہ مقصد بھی نا مکمل ہے یعنی صرف ترجمہ پر مطمئن ہوجانا بھی غلط ہے۔بلکہ اس میں غور و فکر ( تدبر) کرنا ہی اس کے نزول کا اہم مقصد ہے ۔ تدبرِ قرآن سے کیا مراد ہے؟ عام فہم الفاظ میں تدبرِ قرآن کے معنی و مقصد یہ ہیں کہ انسان دورانِ تلاوت یہ غور کرے کہ کلام اللہ کی آیات کس طرح عملی زندگی میں رہنمائی فراہم کرتی ہیں یعنی ہر آیت کی تلاوت اور ترجمے کے بعد توقف کریں ، غور کریں اس کے احکامات پر عمل پیرا ہوں اور پھر آگے بڑھیں کیونکہ جلدی کرنے سے تدبر کا مقصد و مرحلہ چھوٹ جاتا ہے۔بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے مظاہر، پچھلی اقوام کے انجام اورقرآن کریم میں انتہائی گہری نظر سے غور و فکر کرنا ہرمسلمان کیلئے ضروری ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قومِ لوط پر آنے والے عذاب کا تذکرہ |