اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ قرآن کریم کا سب سے اہم اور بڑا موضوع اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی صفات کے ذکر اوروضاحت سے متعلق ہے اور عقیدۂ توحید کے عملی مطالبوں کی تفاصیل زیادہ تر قرآن مجید ہی میں بیان کی گئی ہیں ۔عقیدہ توحید کا سیدھا سادہ مطالبہ یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو صرف اللہ تعالیٰ کا غلام سمجھے، وہ ہر معاملہ میں اللہ تعالیٰ کو واحد مختارِ کل سمجھتا ہو اور اس کا ہر عمل آقا کی مرضی کے مطابق ہو۔ چنانچہ توحیدالٰہی کی سمجھ اور نفاذ اولین نکتہ ہے۔ ہر خیر کی بنیاد توحید سے ہے اور ہر شر کا محرک شرک اور اس کی اقسام ہیں ۔ اس نکتہ کو اثرات و نتائج کے لحاظ سے پرکھیئے۔ پہلی بات تو یہ ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ابتدا میں صرف ایک نکاتی لائحہ عمل اختیار کیا وہ یہ کہ کفار کے دل و دماغ سے شرک کا ناسور نکالا اور اسباقِ توحید کی تعلیم دی یعنی ابتدا عبادات یا اذکار کی تبلیغ سے نہیں کی بلکہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور وقار کا احساس دلایا اور اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات میں غیر اللہ کی شراکت کی ہر لحاظ سے مذمت کی۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انتہائی محدود عرصے میں تمام کا تمام معاشرہ یکسر بدل گیا ۔جو ایک دوسرے کے قتل کے گرویدہ تھے وہ ’’ بنیان مرصوص ‘‘ سیسہ پلائی دیوار بن گئے ، جو شراب خوری کے دلدادہ تھے انہوں نے مٹکوں کے مٹکے مدینے کی گلیوں میں بہا دئے ۔یہ سب توحید کی برکت سے ممکن ہوا ۔ حل کا اطلاق کیسے ممکن ہے؟ (عقیدۂ توحید کی سمجھ بذریعہ تدبر و اتباعِ قرآن کریم) اب سوال یہ ہے کہ عقیدہ توحید کس طرح سمجھا اور سمجھایا جائے تو مختصر سا جواب ہے کہ ’’ تدبر قرآن کے ذریعے‘‘ جو بقول شخصے’’ بہت آسان مگر بہت مشکل ۔‘‘ آسان اس لحاظ سے کہ اللہ تعالیٰ نے آسان کردیا ہے اور مشکل اس لحاظ سے کہ نفس کُشی اور تفرقے کی مقدس گائے کو قربان کئے بغیر اس پر عملدر آمدممکن نہیں ۔چنانچہ موجودہ صورتِ حال سے نکلنے کا واحد ، عملی، آسان اور موثر ذریعہ تدبرِ قرآن ہے ۔ قرآن کریم کے نزول کا اہم مقصد اس پر غور و فکرہے تاکہ وحی کی اتباع کی جاسکے جیسا کہ مندرجہ ذیل آیات سے واضح ہے ۔ فرمانِ الہٰی ہے: ﴿ کِتٰبٌ اَنْزَلْـنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْآ اٰیٰتِہٖ وَ لِیَتَذَکَّرَ اُوْلُوا الْاَلْبَابِ ﴾ (ترجمہ) یہ بابرکت کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف اس لئے نازل فرمایا ہے کہ لوگ اس کی |