اصل مسئلہ کیا ہے؟ 1. شرک کا ارتکاب2.نہی عن المنکر سے صرف ِنظر3. آپس میں فرقہ بندیاں 4. دنیا کی زندگی کو آخرت کی زندگی پر ترجیح دینا 5. ناموس ِربّ العالمین کے دفاع کے حوالے سے مجرمانہ غفلت ہم نے ارتکابِ شرک اور آپس کا تفرقہ جیسے اہم اور اصل مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ رہنما حضرات اصلاحِ معاشرہ کے حوالے سے صرف ظاہری وجوہات اور درمیان سے صورتحال کو بہتر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہی عن المنکر جیسے اہم فریضے کو چھوڑے بیٹھے ہیں ۔ مثلاً موجودہ تبلیغی تحریک تبلیغِ عبادات و فضائلِ اعمال کے ضمن میں ہے ۔مگرسوال یہ ہے کہ مسلمان کو ایمان اور توحید کے تقاضے سمجھاناآخر کس کی ذمہ داری ہے؟ اسی طرح اکثر بزعم خود چند جہادی تحریکیں اعلائے کلمۃ الحق کے پہلو سے خالی اور محض خطۂ زمین کی آزادی اور دشمنوں سے بدلہ لینے کیلئے ہیں اسی طرح کچھ لوگ خلافتِ اسلامیہ کے نفاذ کو تمام مسائل کا حل سمجھتے ہیں مگر آپ خود غور کریں کہ نظامِ خلافت کے نفاذ کی موجودہ کوشش تفرقے کے جوازپر مطمئن، الگ الگ اماموں پرقائم لوگوں کو ایک خلیفہ کے جھنڈے تلے کس طرح جمع کرسکتی ہے؟ دوسرے الفاظ میں موجودہ صورتحال (Status quo) کے ساتھ خلافت کا نفاذ ایک ناممکن بات ہے کیونکہ یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ نظریاتی طور پر متفرق لوگ اگر بظاہر ایک تحریک اور ایک رہنما کے تحت ایک پلیٹ فارم پر اکھٹے ہوبھی جائیں تو ایک وقت آتا ہے کہ بنیادی اختلاف حاوی ہوجاتا ہے اور اتحاد کی ہنڈیا بیچ چوراہے پر پھوٹ جاتی ہے۔ جب تک دل اسلامی اخوت کے تحت نہ جڑیں اور نظریاتی (تفرقی) اختلاف کا خاتمہ نہ ہواس وقت تک کتنے بھی راستے اختیار کرلئے جائیں سب بے سود ہیں ۔ اس ساری بحث کا مقصد محض اعتراض اور لوگوں کی کوششوں پر تنقید نہیں بلکہ بصد خلوص و احترام یہ نکتہ گوش گذار کرنا ہے کہ متفرق رہتے ہوئے اور تفرقے کو جائز قرار دیتے ہوئے اصلاحِ احوال کی ساری کوششیں بے فائدہ ہیں اور اصل کام یعنی اسباقِ توحید کی تبلیغ کو نظر انداز کرنا بہر حال ایک سنگین غلطی ہے کیونکہ توحید کو اپنانا اس کی تبلیغ وترویج محض پسند ، ناپسند یا اختیاری (Optional) نہیں بلکہ لازمی اور ترجیحی کام ہے۔باقی سارے کام اس کے بعد ہیں ۔ |