مصروفیات میں مشغولیت، اسلامی نمونہ (Model) کی تعلیمات سے دوری، خصوصاً شرک کے ارتکاب کی و جہ سے ہم بین الاقوامی سطح پر مرعوب ہوتے جارہے ہیں جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے:۔ ﴿سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ کَفَرُوا الرُّعْبَ بِمَآ اَشْرَکُوْا بِاللہِ مَالَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطَانًا ﴾ (اٰلِ عمران :151) ’’ ہم عنقریب کافروں (حق کا انکار کرنے والوں )کے دلوں میں رعب ڈال دیں گے، اس وجہ سے کہ یہ اللہ کے ساتھ ان چیزوں کو شریک کرتے ہیں جس کی کوئی دلیل اللہ نے نہیں نازل کی ۔ خود فیصلہ کریں کہ آج کے دور میں کون سا گروہ کس گروہ سے مرعوب ہے؟ خلاصہ یہ ہے کہ اخلاقی خرابی بڑھتی جارہی ہے ، قوم بے پردگی کی انتہا سے بے لباسی کی طرف بڑھ رہی ہے، نمازی اور باشرع افراد بھی نئی نئی اصطلاحوں کے تحت سودی لین دین میں خوب ملوث ہیں ۔ ایک سائل یہ پوچھنے میں بھی حق بجانب ہے کہ ہزاروں خانقاہوں ، آستانوں ، مزاروں اور مدارس و مساجد میں لاکھوں زندہ یا فوت شدہ مذہبی رہنماؤں کی کثرت کے باوجود گمراہی کیوں بڑھ رہی ہے؟ اس صورتحال سے کم از کم یہ تو ثابت ہوتا ہی ہے کہ ان تحریکوں میں لازمی کوئی بنیادی کمی یا خرابی ہے۔ اصلاحِ معاشرہ کی تحریکوں کی ناکامی کی اصل وجہ (اصل مسئلے سے صرفِ نظر) موجودہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے بہت سے حل بھی تجویز کئے جاتے ہیں مثلاً کوئی جہادکے نام پر حربی مزاحمت کی بات کرتا ہے ،کوئی خلافت کے نفاذاور کوئی تبلیغِ عبادات کو مسئلہ کا حل تصور کرتا ہے ۔ لیکن مشاہدہ یہ ہے کہ سالوں سے جاری ان کوششوں کے نتائج سامنے نہیں آتے بلکہ مسئلہ دن بدن بگڑتا جارہا ہے مسلمانوں کی اراضی تسلسل سے کفار کے قبضے میں جا رہی ہیں ، وسائل پر کنٹرول بڑھتا جا رہاہے ، اور یہ حقیقت کہ مسلمانوں کے خلاف کفار کی اکثر کامیابی دوسرے مسلمانوں ہی کے تعاون سے ممکن ہوئیں ، سیاسی اور معاشی محرکات اور وطنی حمیت کے ز یرِ اثر ہونے والی ان رَسّہ کشیوں کو جہادِ اسلامی کا نام دینا قابلِ غور معاملہ ہے۔اسی طرح تبلیغِ عبادات کے ضمن میں مسجدوں میں لوگوں کی تعداد دکھا کردینی رجحان میں اضافہ کی بات کی جاتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ آبادی کی مجموعی شرحِ اضافہ کے لحاظ سے دین کی طرف راغب ہونے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔کیونکہ مساجد اور ان کی گنجائش کے مقابلے میں ہسپتالوں ، اسکولوں اور |