پھر اگر مفادات کا ٹکراؤ ہوتا ہے تو وہ صرف تماشائی کا کردار ادا کرتے ہیں ۔آج کے مسلمان عملاً مسلمان ہونے کے علاوہ سب کچھ ہیں ورنہ کیا و جہ ہے کہ اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم صرف اتباعِ وحی اور اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرکے کامیاب ہوئے جبکہ آج ہم ناکام ہیں ۔ اصل و جہ یہ ہے کہ ہم اتباعِ وحی اور اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کے مرحلے تک آتے ہی نہیں ہیں ۔ ہم کو چاہیئے کہ ہم آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر خود سے سوال کریں کہ ہمارے ہر مذہبی عمل کا حوالہ اور بنیاد کیا ہے؟ صاف بات ہے کہ ہماری ساری کوششیں اپنے مذہبی راہنماؤں کی پیروی ، آباء و اجداد کی نقالی اور غیر مستند کتب سے رہنمائی تک محدود رہتی ہیں اور زندگی بھر وہی کچھ کرتے ہیں جو آباء و اجداد اور فرقے کے نظام کے مطابق ہوتا ہے۔اب تو اکثر لوگوں کی دینی علمیت بے نام بزرگوں کے اقوال اور حکایتوں تک محدود ہوتی جارہی ہے ان بزرگوں سے منسوب مافوق الفطرت باتیں بڑے شوق سے سنی اور سنائی جاتی ہیں اور اس کے برعکس قرآن و حدیث کا لفظ سنتے ہی چہرے کا رنگ بدل جاتا ہے اور منہ کا مزہ کڑوا ہوجاتا ہے۔ اسی طرح عقیدہ توحید کی سمجھ اور اسوۂ رسول پر عملدرآمد کا دعویٰ کرنے والوں کا المیہ یہ ہے کہ عملی معاملات میں غیر اسلامی طور طریقے اپنانے میں وہ اپنے ہم عصروں سے کسی طور کم نہیں مثلاً فضول خرچی، جھوٹ، کاروباری بد دیانتی، رشوت ، بے پردگی وغیرہ میں ہم پیالہ و ہم نوالہ نظر آتے ہیں ۔ دوسروں پر شرکیہ طور طریقے کے الزامات لگانے والوں کوشرک کی مندرجہ ذیل صورت کے حوالے سے یہ فرمانِ الہٰی ذہن میں رکھنا چاہیے۔ ﴿ اَفَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰــهَهٗ هَوٰىهُ وَاَضَلَّهُ اللّٰهُ عَلٰي عِلْمٍ وَّخَتَمَ عَلٰي سَمْعِهٖ وَقَلْبِهٖ وَجَعَلَ عَلٰي بَصَرِهٖ غِشٰوَةً ۭ فَمَنْ يَّهْدِيْهِ مِنْۢ بَعْدِ اللّٰهِ ۭ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ ﴾ (الجاثیہ45:آیت23) ’’کیا آپ نے اسے بھی دیکھا ؟ جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور سمجھ بوجھ کے باوجود اللہ نے اسے گمراہ کردیا ہے اور اس کے کان اور دل پر مہر لگادی ہے اور اس کی آنکھ پر بھی پردہ ڈال دیا ہے ، اب ایسے شخص کو اللہ کے بعد کون ہدایت دے سکتا ہے؟کیا اب بھی تم نصیحت نہیں پکڑتے۔‘‘ اس کے علاوہ صرف دنیاوی زندگی کے مستقبل کو محفوظ بنانے کی فکر میں غیر شرعی اور غیر متوازن |