انہیں کوئی حاجت ہوتی تو وہ مسجد سے باہر نکلتے اور قضاء حاجت کے بعد واپس مسجد میں آجاتے اور گھر بھی کسی ضروری کام کے لئے جاتے ورنہ مسجد میں ہی قیام پذیر رہتے یہ معمول ان کا پورے مہینہ رہتا ۔ اور لوگوں کو بھی تلقین کرتے کہ ’’ یہ مہینہ گناہوں کے کفارہ کے لئے ہے اس لئے اس مہینہ میں ہم نہیں چاہتے کہ بقیہ مہینوں کی طرح گناہوں ،خطاؤں اور برائیوں کے ساتھ گزاردیں ۔‘‘ ہمارے اسلاف اپنے روزوں کی حفاظت کرتے اور ہر ایسے عمل سے دور رہتے جس سے ان کے اجرو ثواب میں کمی واقع ہو یا وہ ناقص ہوجائے ،ان میں سے کسی نے کہا ’’ہم اپنا وقت مسجد میں اسی لئے گذارتے ہیں کہ ہمارے صیام و قیام محفوظ رہ سکیں ۔‘‘ سلف صالحین اور رمضان المبارک میں کھانا کھلانے کا اہتمام رمضان کریم میں اطعام الطعام کو خاص فضیلت و اہمیت حاصل ہے خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم افطار کرانے کی ترغیب دیتے اور اس بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : " من أ فطر صائما كان له مثل أجره دون أن ينقص من أجر الصائم شيئا "[1] ترجمہ:’’جس نے کسی روزہ دار کو افطار کرایا اس کو بھی اتنا ہی اجر ملےگا جتنا روزہ دار کومگر روزہ دار کے اجر میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ ہمارے اسلاف رحمہم اللہ رمضان کریم میں روزہ داروں کو افطار کراتے اور صدقہ و خیرات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور عظیم اجرو ثواب کے حق دار ٹھرتے ۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں ذکر ہے کہ وہ ہمیشہ یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ افطار کرتے تھے اور اگر انہیں معلوم ہوتا کہ ان کے گھر والوں نے ان (مساکین ) کو بغیر کچھ دئیے واپس کردیا ہے تو وہ اسرات کو کھانا ہی نہیں کھاتےتھے ۔ اور اگر افطار کے وقت کوئی سائل آجاتا تو آپ اپنا کھانااسے جاکر دیتے اور خود ساری رات فاقہ میں گزار دیتے ۔ عبداللہ بن مبارک اور حسن رحمہما اللہ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ لوگوں کو کھانا کھلاتے اور ان کی خدمت کرتے اور انہیں پنکھے سے ہوا دیتےجبکہ وہ خود بھی روزہ دار ہوتے۔ |