البخاری رحمہ اللہ رمضان کریم میں ہر روز ایک ختم مکمل کرتے تھے اور تراویح میں ہر تین راتوں میں ایک قرآن کریم کی تکمیل کرتے۔ قاسم بن علی اپنے والد صاحبِ تاریخ دمشق ابن عساکر رحمہ اللہ کے بارے میں رقمطراز ہیں کہ وہ باجماعت نمازپابندی سے ادا کرتے اور تلاوت قران کریم سے اپنی زبان و روح کو معطر رکھتےان کا معمول تھا کہ ہر جمعہ المبار ک کے دن قرآن کریم مکمل کرتے اور رمضان کریم میں ہر روز تکمیل کرتے اور مشرقی منار کے پاس اعتکاف فرماتے تھے۔ امام زہری رحمہ اللہ کے بارے میں آتا ہے کہ جب رمضان داخل ہوتا تو وہ تمام امور ترک کردیتے یہاں تک اپنی تعلیمی مجالس بھی ترک کرکے قرآن کی طرف اپنی توجہ مرکوز کرلیتے ۔اس طرح سفیان ثوری رحمہ اللہ کے بارے میں ذکر ہے کہ وہ رمضان میں تمام نفلی عبادات پر قرآن کریم کی تلاوت کو ترجیح دیتے تھے ۔ امام زہری رحمہ اللہ کا قول ہے کہ " إذا دخل رمضان فإنما هو قراءة القرآن وإطعام الطعام " . ’’ جب رمضان کا مہینہ شروع ہوجائے تو صرف قرآن کی تلاوت اور کھانا کھلانے کا اہتمام ہونا چاہئے۔‘‘ اسود بن یزید رحمہ اللہ رمضان کے مہینہ میں ہر دو راتوں میں قرآن کریم مکمل کرتے اور مغرب اور عشاء کے درمیان آرام کرتے اور غیر رمضان میں چھ راتوں میں تکمیل قرآن کرتے ۔[1] امام الزاہد سعیدبن جبیر رحمہ اللہ بھی رمضان کریم میں دو راتوں میں قرآن کریم کی تکمیل کرلیتے تھے ۔ امام ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تین دن سے کم مدت میں قرآن کریم کی تکمیل کی ممانعت جو وارد ہوئی ہے وہ مداومت اختیار کرنے والوں کے لئےہے لیکن خاص اوقات جیسے رمضان کریم اور اماکن مفضلہ جیسے مکہ اور مدینہ میں غیر مقامی افراد کے لئے قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت مستحب عمل ہے یہی قول امام احمد بن حنبل اور امام اسحٰق رحمھم اللہ کا ہے اور اس پر ائمہ سلف کا عمل بھی ثابت ہے ۔[2] زبید الیامی رحمہ اللہ کے بارے میں آتا ہے کہ جب رمضان کریم کا مہینہ آتا تو آپ قرآن کریمپر اپنی |