Maktaba Wahhabi

33 - 135
کی وفات والے سال جبریئل علیہ السلام نے دو مرتبہ دور کرایا ‘‘ یہ روایت اس بات کی دلیل ہے کہ رمضان کریم میں قرآن کریم کی رات میں کثرت سے تلاوت کی جائے کیونکہ رات میں تمام اعمال واشغال منقطع ہوجاتے ہیں اورطبیعت میں یکسوئی اور انسان کے قلب و ذہن تدبر و تفکر کے لئے تیارہوجاتا ہے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے ﴿ إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْاأً وَأَقْوَمُ قِيلاً﴾ [المزمل:6] ترجمہ: رات کا اٹھنا یقینا (نفس کو) بہت زیر کرنے والا ہے اور قرآن پڑھنے کے لیے زیادہ موزوں وقت ہے۔ امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’ میں عبادات میں رات کی تاریکی میں پڑھی جانے والی نماز کے علاوہ کسی اور عبادت کو افضل نہیں پاتا۔‘‘ امام ابن جوزی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ سلف صالحین کے قیام اللیل کی سات صورتیں تھیں ۔ 1.کچھ ساری رات قیام کرتے اور عشاء کے وضوکے ساتھ فجر کی نماز پڑھا کرتے ۔ 2. چندنصف رات قیام کرتے ۔ 3.کچھ ایک تہائی رات قیام کرتےاللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : أحب الصلاة إلى اللّٰه عز وجل صلاة داود كان ينام نصف الليل ويقوم ثلثه وينام سُدسه [1] ’’اللہ تعالی کو داود علیہ السلام کی نماز بہت پسند تھی وہ آدھی رات سوتے اور تیسرا پہر قیام کرتے اور چھٹا پہر سوجاتے‘‘ 4. بعض دیگرےچھٹا پہر قیام اللیل کرتے تھے ۔ 5.چند قیام کرتےمگر جب ان پر نیند غالب آجائے تو سوجاتے اگر بیدار ہوتے تو پھر قیام کرتے ۔ 6. ان میں سے بعض چار رکعتیں اور بعض دو رکعتیں پڑھا کرتے ۔ 7. ان میں سے بعض مغرب اور عشاء کے درمیان قیام کرتے ہیں اور سحری کے وقت ہلکی نیند لیتے اس طرح
Flag Counter