ترجمہ :بھلا جو شخص راتوں کے اوقات سجدے اور قیام کی حالت میں (عبادت میں )گزارتا ہو،آخرت سے ڈرتا ہو اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہو۔ قال: "ذاك عُثمانُ بن عفَّان"ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا ’’یہ تو عثمان رضی اللہ عنہ کی صفات ہیں ۔‘‘ امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے مزید اس بارے میں فرمایا: "وذلك لكثرة صلاةِ أميرِ المُؤمنين عُثمان بالليل وقراءتِه،". ’’ یہ فضیلت امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ کو تہجد اور تلاوت قرآن کا کثرت سے اہتمام کرنے کی وجہ سے ملی۔[1] امام نافع مولیٰ ابن عمر رضی اللہ عنھماکہتے ہیں کہ عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنھما اپنے گھر میں ہی قیام اللیل کرتے اور جب لوگ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے واپس لوٹتے تو آپ اپنے ساتھ پانی لیتے اور مسجد نبوی میں داخل ہوجاتے اور فجر کی نماز کے بعد ہی نکلتے ۔‘‘[2] امام نافع رحمہ اللہ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں ’’ میں لوگوں کو قیام اللیل میں امامت کراتا تو ایک رکعت میں سورۃ الفاتحہ اور فاطر وغیرہ کی قرآءت کرتا تو یہ لوگوں پر ہر گزگراں نہیں تھی‘‘[3] امام ثابت البنانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ’’ کوئی عبادت گزار اس وقت تک عابد نہیں کہلاسکتا جب تک اس میں دو صفات نہ پائی جائیں ایک راتوں کا قیام اور دوسرا دنوں کے روزے کیونکہ یہ دونوں اس کے خون اور جسم (گوشت )میں سے ہیں ‘‘ ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کی حدیث جو انہوں نے اپنے والد ماجد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی کہ " أنّ جبريل عليه السلام كان يعارضه القرآن كل عام مرةً وأنّه عارضه في عام وفاته مرتين" [4] ’’ جبرئیل علیہ السلام ہر سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک مرتبہ قرآن مجید کا دور کرایا کرتے تھے اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم |