Maktaba Wahhabi

31 - 135
فضلیت بخوبی معلوم تھی ، وہ لوگ اس کا حق بخوبی ادا کرتے تھے ،ان کا قیام اللیل تو سارا سال جاری رہتا اورصرف رمضان کریم تک محدود نہ تھا ان کو اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کا خوب اندازا تھا " من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه ". ترجمہ:’’جس شخص نے ایمان اور ثواب کی امید کے ساتھ رمضان میں قیام کیا تو اس کے وہ گناہ بخش دئیے جائیں گے جو اس نے پہلے کئے تھے‘‘ اور جو شخص شب قدر میں ایمان کے ساتھ(یعنی شب قدر کی حقیقت کا ایمان و اعتقاد رکھتے ہوئے) اور طلب ثواب کی خاطر کھڑا ہوا تو اس کے وہ گناہ بخش دئیے جائیں گے جو گزر چکے ہیں ۔‘‘[1] سائب ابن یزید کہتے ہیں ’’امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب اور تمیم الداری رضی اللہ عنھما کو حکم دیا کہ وہ رمضان میں لوگوں کو قیام اللیل میں قرآن کریم سنائیں ، ان میں سے ہر ایک دو سو آیات پڑھتا یہاں تک کہ ہمیں طویل قیام کی وجہ سے لکڑی پر ٹیک لگانی پڑتی اور ہم فجر سے کچھ دیر پہلےقیام سے فارغ ہوتے ‘‘[2] ابو عثمان النھدی کہتے ہیں کہ ’’سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے تین قراء کو حکم دیا کہ وہ رمضان میں قرآن کریم سنائیں ان میں سے ایک تیس آیات پڑھتا اور دوسرا پچیس آیات پڑھتا اور تیسرا بیس آیات کی قرآءت کرتا تھا۔[3] امام مالک رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں عبد اللہ ابن ابی بکر نے فرمایا’’ میں نے اپنے والد سے سنا کہ ’’ہم لوگ رمضان المبارک میں قیام اللیل سے جب فارغ ہوتے تو فجر کے خوف سے عجلت میں سحری کرتے ‘‘[4] خلیفہ ثالث سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کے قیام اللیل کا حال یہ تھا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ یہ آیت پڑھتے: ﴿ أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ ﴾ [الزمر:9]
Flag Counter