صیام الدھر کی کراہیت سے شوال کے روزوں کی کراہیت پر استدلال: جس طرح بعض نے صیام الدھر کے استحباب پر استدلال کیا جوکہ غلط تھا اسی طرح بعض نے اس کے بالکل برعکس صیام الدھر کے روزوں کے مکروہ ہونے سے شوال کے چھ روزے مکروہ ہونے کا استدلال کیا گیا۔[1] جواب :یہ استدلال کرنا بھی بالکل غلط ہے۔اس لئے کہ صریح روایت میں صیام الابد کے روزوں سے روکا گیا ہے۔جب کہ یہاں صیام الابد کے روزے رکھنے کا نہیں اس کے اجر کا ذکر ہے اور مزید یہ کہ بعض روایات میں اس کی بھی وضاحت ہے کہ وہ کس طرح سال بھر کے روزے بنتے ہیں یعنی رمضان کا ثواب دس مہینوں کے برابر اور شوال کے چھ روزوں کا ثواب دو مہینوں کے برابراس طرح پورے سال کے روزوں کے برابر ثواب ملتا ہے ۔ امام سندی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ ممکن ہے کہ جو ان روزوں کو مکروہ سمجھتا ہووہ حدیث کی یہ تاویل کرےکہ یہ مکروہ ہونے میں ہمیشہ کے روزوں کی طرح ہے۔اور حدیث میں آیا ہے کہ جس نےہمیشہ روزے رکھے اس کا روزہ نہیں ۔جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہےکہ ہمیشہ کے روزے مکروہ ہیں۔لیکن یہ تاویل مردود ہے۔کیونکہ اس سے مراد حقیقت میں مستقل روزے رکھنا مقصود ہے اس لئے کہ حدیث میں ہر مہینے کے تین روزے (ایام بیض )اور اس جیسے دیگر روزوں کے بارے میں ہےکہ ان کا اجر سال کے روزوں کے برابر ہے۔ ظاہراً ہمیشہ کے روزے رکھنا مکروہ ہیں ۔اور جو پورے زمانے کے روزے نہیں اور ان کے بارے میں یہ وارد ہواہے کہ یہ زمانے کے روزے (کی طرح ہیں )تو یہ محبوب ہیں ۔‘‘[2] مسئلہ:شوال کے روزے اور کفارہ قسم کے روزوں کا جمع کرنا: ایک شخص شوال کے چھ روزے بھی رکھنا چاہتا ہے اور اس پر قسم کے کفارہ کے تین روزے بھی ہیں اب کیا ایک روزے میں یہ دونوں نیتوں کا جمع ہونا صحیح ہے۔ |