پورے ماہ شوال تک اور کسی بھی ترتیب کے ساتھ روزے رکھنے میں توسّع موجود ہے۔ مسئلہ:شوال کے چھ روزوں کی قضاء : اگر کوئی شخص کسی وجہ سے ماہ شوال میں یہ چھ روزے نہ رکھ سکا یا کچھ رکھ لئے لیکن مکمل نہ کرسکاتو کیا ایسا شخص ان روزوں کی قضاء کے طور پر دوسرے مہینے میں رکھ سکتاہے۔اسی طرح اگر ایک عورت ماہ رمضان میں مثلاً دس رمضان کو نفاس والی ہوگئی اور چالیس دن نفاس میں رہنے کے بعد پاک ہوئی اور اب رمضان کے روزوں کی قضاء دینا شروع کی ماہ ذی القعدہ آگیا ۔اور ماہ شوال کے چھ روزے نہ رکھ پائی ؟ ماہ شوال کے ان روزوں کی قضاء نہیں ہے۔اس لئے کہ نفلی اعمال کی قضاء نہیں ہوتی ۔ اور اس لئے بھی کہ اگر اس کی قضا کو عام رکھا جائے تو حدیث میں بالاختصاص شوال کے ذکر کاکوئی معنی نہیں رہتا۔لہٰذا اگر کوئی یہ روزے نیت کے باوجود کسی عذر کی وجہ سے نہ رکھ سکایا چند رکھے لیکن مکمل نہیں کرسکا تو اب بقیہ کی قضاء نہیں دے گاالبتہ امید رکھی جا سکتی ہے کہ اسے اس کی نیت کے بقدر اجر مل جائے۔اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : ’’انما الاعمال بالنیات‘ ‘ یعنی : تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر موقوف ہے۔[1] مسئلہ:شوال کے چھ روزوں سے صیام الدھر کے استحباب پر استدلال : بعض لوگوں نے اس حدیث سے استحباب صیام الدھر کے جواز پر استدلال کیا ہے۔[2] جواب :امام صنعانی رحمہ اللہ صوم الدھر کے حوالے سے اختلاف نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں : اس تشبیہ کا معنی یہ ہے کہ جس طرح پانچ نمازیں پچاس سے کفایت کرجاتی ہیں ،اسی طرح یہ ایام بیض یا شوال کے روزے سال بھر کے روزوں سے کفایت کرجاتے ہیں لہذا جس طرح اب کوئی پچاس نمازیں پڑھے اسے ثواب نہیں بلکہ گناہ ہی ملے گا۔اسی طرح جو ہمیشہ کے روزے رکھے وہ بھی ثواب کا مستحق نہیں ۔(جیسا کہ صیام الدھر سے متعلق نہی والی احادیث میں صراحت موجود ہے۔)[3] |