Maktaba Wahhabi

113 - 135
دی جاسکتی ہے ۔لیکن ماہ شوال کے روزے صرف ماہ شوال تک ہی خاص ہیں ۔ لہذا رمضان کے روزوں کی قضاء سے پہلے ماہ شوال کے روزے رکھے جاسکتے ہیں ،البتہ مستحسن یہی ہے کہ ما ہ رمضان کے روزوں کی قضاء پہلے دی جائے۔ مسئلہ:شوال اور کفارے کے روزے : اس باب میں بھی رمضان کے روزوں کی طرح گنجائش موجود ہے کہ کفارے کے روزوں بعد میں رکھا جاسکتاہے اور شوال کے روزوں کو پہلے ۔ مسئلہ:شوال کے چھ روزے متفرق رکھیں یا متتابع : شوال کے چھ روزے پے درپے بغیر کسی ناغے کے رکھے جائیں یا اس میں تفریق جائز ہے۔اس بارے میں چونکہ حدیث میں کوئی ایسی قید موجود نہیں کہ جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ یہ پے درپے بغیر کسی ناغے کے رکھے جائیں ۔لہذا ان روزوں کو کسی بھی ترتیب کے ساتھ رکھا جاسکتا ہے۔البتہ انہیں جلدی رکھ لینا افضل ہے۔اس لئے کہ نیکی کے کاموں میں مسابقت مطلوب ہے۔جیسا کہ قرآن مجید میں ہے کہ﴿ سَابِقُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ ﴾[1]یعنی : تم اپنے پروردگار کی مغفرت اور اس جنت کو حاصل کرنے کےلئے ایک دوسرے سے آگے نکل جاؤ جس کا عرض آسمان اور زمین کے عرض کے برابر ہے۔ اسی طرح [البقرۃ :148 ، المائدۃ :48 ]میں یہ مضمون بیان ہے۔ اسی طرح سیدنا موسی علیہ السلام نے کہا تھا کہ﴿ قَالَ هُمْ اُولَاۗءِ عَلٰٓي اَثَرِيْ وَعَجِلْتُ اِلَيْكَ رَبِّ لِتَرْضٰى﴾[2]یعنی:موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا:’’وہ لوگ بھی میرے پیچھے آہی رہے ہیں اور میں نے تیرے حضور آنے میں اس لئے جلدی کی تاکہ تو مجھ سے خوش ہوجاؤ۔‘‘ خلاصہ یہ ہے کہ ان ادلہ کی بناء پر روزوں کے رکھنے میں جلدی مستحسن ہے ،اور جلدی کے مفہوم میں دونوں چیزیں آجاتی ہیں ،یعنی عید کے بعد ماہ شوال کے ابتدائی دنوں میں ہی رکھنا اور پے درپے رکھنا ۔تاہم
Flag Counter