خلاف ہو تو اس حدیث کو ضعیف ثابت کرنے کے درپے ہوجایا جاتا ہے اور چھوڑ دیا جاتاہے۔اور ایسا کرتے وقت کیوں بھلا دیا جاتا ہے کہ ضعیف ثابت کرنے کے بعد یہ آپ کے یہاں حجت ہی رہے گی۔کیونکہ اس کا تعلق فضائل سے ہے۔ ایک طرف صحیح مسلم کی روایت اور دوسری طرف اپنی فقہ کی اندھی تقلید ۔تقلید کے جمود میں حنفیہ نے کیا کیا کارنامے کئے یہ داستان بڑی طویل ہےکہ صرف حق تقلید نبھانے کے لئےقرآن و احادیث کے ساتھ کیا کیانہ کیاگیا ؟؟ہم مفتی صاحب سے بھی یہی کہتے ہیں آپ نے تقلید سے وفا کرنی ہے ،بھلے کریں ! ! لیکن تقلید سے وفا نبھانے کے لئے احادیث کی ہرزہ سرائی نہ کی جائے ۔ اور پھرمفتی صاحب نے تو تقلیدِ امام کے ساتھ ایسی وفا نبھائی کہ موصوف کے اپنے حنفیہ کی بڑی تعداد اس مؤقف میں ان کے مقابل کھڑی ہے۔ ماہ شوال سے متعلق فقہی مسائل : مسئلہ:رمضان کے روزوں کی قضاء سے پہلے شوال کے چھ روزے : اگر کسی شخص یا عورت کے ذمے رمضان کے روزوں میں سے کچھ باقی ہوں تو وہ کیارمضان کے روزے مکمل کرے یا شوال کے چھ روزے رکھے؟۔ اس بارے میں بعض اہل علم کی رائے یہ ہے کہ رمضان کے روزوں کی قضاء پہلے دی جائے اورپھر شوال کے چھ روزے رکھے جائیں ۔لیکن اس بارے میں راجح مؤقف یہی ہے کہ بہتر تو یہی ہے کہ پہلے رمضان کے روزوں کی قضاء دی جائے کیونکہ یہ فرض ہیں ،البتہ دلائل کی بنیاد پریہ گنجائش موجود ہے کہ رمضان کی قضاء سے پہلے شوال کے روزے رکھے جاسکتے ہیں ،اس لئے کہ قرآن مجید میں رمضان کے روزو ں کی قضاء کے بارے میں ﴿ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَ يَّامٍ اُخَرَ ﴾ یعنی دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرلو۔[1]کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔جو کہ پورے سال کو شامل ہیں کہ پورے سال میں اگلے رمضان سے پہلے پہلے روزوں کی قضاء |