Maktaba Wahhabi

111 - 135
یعنی :’’اکثر اہل علم کے نزدیک شوال کے چھ روزے مستحب ہیں اور یہی مؤقف کعب الاحبار رحمہ اللہ،شعبی رحمہ اللہ، میمون بن مہران رحمہ اللہ اور یہی مؤقف امام شافعی رحمہ اللہ کا ہے۔‘‘ ٭ یہی مؤقف عام متاخرین حنفیہ کا ہے۔[1]اور متاخرین حنفیہ کے بارے میں خو د مفتی صاحب کو بھی یہ مسلّم ہے۔جیسا کہ لکھتے ہیں:’’ انہیں مستحب سمجھنا متاخرین حنفیہ یا دوسرے مذاہب کے لوگوں کا خیال ہے۔‘‘ [2] فضائل میں ضعیف احادیث اور شوال کے روزے: موصوف نے صحیح روایات کو ضعیف ثابت کرنے کی کوشش کی ہے: موصوف کا انہیں ضعیف ثابت کرلینے کے بعد بھی چارہ نہیں بنتا اس لئے کہ ان کے یہاں توفضائل میں ضعیف روایت قابل قبول ہوتی ہے۔آئیے ملاحظہ کیجئے: امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ایک قول امام ابن حزم رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے ۔ الخبر الضعیف عن رسول اللہ اولیٰ من القیاس‘ ولایحل القیاس مع وجودہ“۔[3] یعنی:ضعیف حدیث قیاس سے اولی ہے۔اور اس ضعیف روایت کی موجودگی میں قیاس جائز نہیں ۔ اسی طرح ابن الھمام رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ”الاستحباب یثبت بالضعیف غیر الموضوع“ ضعیف حدیث جو موضوع کی حد تک نہ پہنچی ہوئی ہو، اس سے استحباب ثابت ہوتا ہے۔[4] ضعیف حدیث جوکہ موضوع نہ ہو،سے استحباب ثابت ہوجاتا ہے۔ اس کی مثال جیسےحنفیہ نے سیدنا ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ضعیف روایت کی بنیاد پر صلوۃ الاوابین کو مستحب قرار دیا۔ ایک طرف تو فضائل میں ضعیف روایت قابل قبول !!لیکن دوسری طرف صحیح روایت بھی اگر قول امام کے
Flag Counter