اسی طرح ایک جگہ مفتی صاحب لکھتے ہیں : ’’ جبکہ مشائخ اوّل تو امام کے مقلد ہیں اور مجتہد کا قول مقلد کے لئے چھوڑنا قلب موضوع اور خروج عن المذھب کے مترادف ہے۔‘‘[1] اسی طرح ایک مقام پر لکھتے ہیں : ’’جو روایت قرن اول میں غیر معروف اور غیر معمول بہ ہو جیسا کہ امام ابوحنیفہ اور امام مالک کے صنیع اور صراحت سے معلوم ہوا۔بعد میں اس پر ترک عمل بہتر ہے۔‘‘[2] اسی طرح ایک جگہ لکھتے ہیں : ’’امام صاحب کی پیروی ضروری ہے۔‘‘[3] ان تمام عبارات سے واضح ہواکہ دراصل یہاں حدیث پر طرح طرح کے طعن کرنے کا مقصد صرف تقلید کا دفاع ہے۔اور اس دفاع کے لئے چاہے احادیث کے ساتھ جوبھی سلوک ہو اس کی انہیں کوئی پرواہ نہیں ۔ شوال کے چھ روزے اور سلف صالحین : شبہ : موصوف لکھتے ہیں : ’’ شوال کا پہلا دن یعنی عید کا دن چھوڑ کر متفرق مہینے کے کسی حصے میں بھی یہ روزے رکھنا گو متاخرین حنفیہ کے قول کے مطابق مباح اور سنت حسنۃ مستحب ہوسکتے تھے مگر احادیث کے قرن اوّل میں متروک ہونے کی وجہ سے اور آئمہ کبار کے انکار اور اقوالِ مشائخ کے اضطراب کے نتیجہ میں اس کا ترک زیادہ بہتر اور باعث ثواب ہے۔‘‘[4] ازالہ : اس عبارت میں موصوف کا یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ یہ احادیث قرن اوّل میں متروک تھیں ۔یہ احادیث قطعاً قرن اوّل میں متروک نہیں تھیں ۔بلکہ موجود ،متداول اور معمول بہا تھیں ۔ آئیے سلف میں یہ مسئلہ کتنا معروف ،متداول تھا ،ملاحظہ فرمائیں ۔ اس حوالے سے عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا قول جامع ترمذی میں موجود ہے۔’’ھو حسن هو مثل صيام ثلاثة أيام من كل شهر‘‘[5] |