Maktaba Wahhabi

106 - 135
ہے۔‘‘[1]یعنی کہیں وہ کہتے ہیں کہ مؤطا پر عمل سے تقلید پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ دوسری طرف ان کا مؤقف یہ بھی ہے کہ فتوی مطلق امام کے قول پر ہوگا یہاں وفائے تقلید میں اس قدر خالص نظر آتے ہیں کہ مشائخ حنفیہ کی بھی بات قبول نہیں ،جن کی کتابوں کے حوالے دے کر قول امام پیش کرتے ہیں ۔ رابعاً: امام مالک رحمہ اللہ نے اسے بدعت کہا ہےاور موصوف نے تو امام مالک رحمہ اللہ کے قول کو لیا ہی نہیں ۔اس لئے کہ موصوف لکھتے ہیں : ’’ان کا ترک مناسب اور اولی ہے۔‘‘[2]مفتی صاحب کے اس جملے سے جو مفہوم نکل رہا ہے وہ یہی ہے کہ روزہ رکھنے والے کے بارے میں موصوف نرم گوشہ رکھتے ہیں ،جبکہ جو مؤقف امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سےمفتی صاحب نے نقل کیا ہے وہ یہ ہے کہ یہ روزے مکروہ ہیں ۔گویا کہ مفتی صاحب نے خود پوری طرح سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مؤقف لیا ہی نہیں ۔ حدیث پر جرح اور اصل مقصد : مفتی صاحب نے حقِ تقلید نبھاتے ہوئےحدیث پر جرح کی ہے۔ہم بڑے وثوق سے کہہ رہے ہیں کہ مفتی صاحب کویہاں حدیث سے کوئی سروکار نہیں اصل مقصد مذھب امام کا دفاع ہے۔کیونکہ خود مفتی صاحب یہ لکھ چکے ہیں : ’’صرف روایت میں آنا عمل کے لئے کافی نہیں ہے جب تک فقہاء کرام نے اس پر عمل نہیں فرمایاہو‘‘[3] یہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث کا انکار نہیں تو اور کیا ہے؟کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث کو قابل عمل بنانے کے لئے فقہاء کا اس پر عمل ہونا ضروری ہے۔یہ جرأت تو منکرین حدیث نے بھی نہیں کی تھی وہ تو بظاہر یہی کہتے ہیں کہ ہم وہی حدیث لیں گے کہ جو قرآن کے موافق ہو۔لیکن مفتی صاحب تو انکار حدیث میں ان سے بھی کہیں آگے نکلے کہ حدیث پر عمل کے لئے موافق قرآن نہیں بلکہ فقہاء کے عمل کے موافق ہونا ضروری ہے۔لیکن ہماری دعوت یہ ہے کہ ہم نے کلمہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاپڑھا ہے ،لہٰذا آپ کے مقابلے سار ی دنیا کی بات کو چھوڑا جاسکتا ہے ۔آپ کی بات کو کسی کے قول و عمل کی وجہ سے نہیں چھوڑا جاسکتا۔
Flag Counter