یعنی:’’ہمارے شیوخ کے نزدیک امام مالک رحمہ اللہ کا ان روزوں کو مکروہ سمجھنا اس ڈر سے تھا کہ کہیں جاہل لوگ اسے رمضان کے ساتھ نہ ملادیں ۔‘‘ امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے بھی استذکار میں ان کے اس قول کی وضاحت یہی کی ہے کہ یا تو امام مالک نے اس ڈر سے کہ جہلاء اسے رمضان کے ساتھ نہ ملادیں ۔یا امام مالک رحمہ اللہ تک یہ حدیث ہی نہیں پہنچی۔نیز اہل علم میں سے بڑی تعداد نے امام مالک رحمہ اللہ کے اس قول کی یا توجیہ کی یا یہی سمجھا کہ امام مالکر رحمہ اللہ تک حدیث نہ پہنچ سکی اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث کے مقابلے میں اس قول کو مردود سمجھا۔چند ایک اہل علم کے نام ملاحظہ فرمائیں :امام نووی،[1]ابن رشد،[2]ابن عبدالبر،[3]امام زرقانی،[4]امام سندی[5]ملا علی قاری[6] انور شاہ کشمیری،[7]امام طیبی،[8]امام صنعانی،[9]ابومحمد موفق الدین عبداللہ ابن قدامۃ[10] ابوالفرج شمس الدین عبدالرحمن بن محمد ابن القدامۃ[11] یحی کاندھلوی[12] قاضی حسین محمد المغربی[13] ابن البناء [14] امام شوکانی،[15]عبیدالرحمٰن مبارکپوری ،[16]عبدالرحمٰن مبارکپوری،[17] شمس الحق عظیم آبادی [18] رحمہم اللہ تعالی اجمعین اور دیگر کئ ایک اہل علم نے اس قول کی تو جیہ کی یا پھر کھلے انداز میں حدیث کو ہی ترجیح دی۔اور ہونا بھی یہی چاہئے کہ حدیث کو ترجیح دی جائے اس لئے کہ خود امام مالک رحمہ اللہ کا قول ہےجیسا کہ گزراکہ اگر میری بات حدیث کے موافق ہوتو لے لو اور اگر مخالف ہو تو اسے چھوڑ دو۔لہٰذا ہمیں ان کے بارے میں یہی حسن ظن ہے کہ ان تک یہ حدیث ہی نہیں پہنچی ہوگی۔ اور مفتی صاحب کو عجیب کشمکش کا سامنا ہے کہیں وہ لکھتے ہیں : ’’یہ کہنا قواعد علم کے خلاف ہے کہ مؤطا یا امام مالک کے ہم مقلد نہیں ہیں ۔اولاً یہ دین کا مسئلہ ہےاور ثانیاً ہمارے امام سے بھی کراہت منقول |