امام مالک رحمہ اللہ اور شوال کے چھ روزے: اعتراض:امام مالک رحمہ اللہ سے مؤطا میں صراحتاً ان روزوں کا انکار اور اس کے ارتکاب کو بدعت فرمانا منقول ہے ۔[1] اولاً:آپ کا امام مالک رحمہ اللہ کا قول اور ان کا مؤقف پیش کرنا کسی عجوبے سے کم نہیں کیونکہ ایک طرف تو آپ کا زور اس بات پر ہے کہ فتوی اصل امام کے فتوی پر ہی ہوگا۔ ثانیاً:امام مالک رحمہ اللہ کے اپنے قول[إنما أنا بشر أخطئ وأصيب فانظروا في رأيي فكل ما وافق الكتاب والسنة فخذوه وكل ما لم يوافق الكتاب والسنة فاتركوه] [2] یعنی :میں انسان ہوں کبھی غلطی بھی ہوجاتی ہے اور کبھی میرا مؤقف صحیح بھی ہوتا ہے۔پس میری رائے میں سے جو کتاب و سنت کے مطابق ہو اسے لے لو۔اور جو خلاف ہو اسے چھوڑ دو۔اس قول کی وجہ سے امام مالک کا شوال کے روزوں سے متعلق مذکورہ قول حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقابلے میں مردود ہے۔ ثالثاً: امام مالک رحمہ اللہ کے اس قول کی وضاحت مختلف اہل علم نے نقل کی ہے ،مالکیہ نے اس قول کی جو وضاحت کی ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظیم سنت کو سینے سے لگایا ہے اور امام مالک کے قول کی ایسی توجیہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان کا قول حدیث کے بالکل مقابل آکر کھڑا نہ ہوجائے ۔ان کا یہ عمل قابل تحسین ہے ،جنہوں نےتقلیدی جمود کی ایسی کالی پٹی نہیں پہنی کہ انکار یا تاویل کرتے وقت وہ بھول ہی جائیں کہ ہم یہ جرأت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث کےبارے میں کررہے ہیں ۔آئیے ملاحظہ کیجئے کہ مالکیہ سمیت دیگر اہل علم نے اس قول کی کیا وضاحت کی ہے۔ امام زرقانی رحمہ اللہ نے اس کی وضاحت میں مطرف کا قول نقل کیا ہے : ’’امام مالک رحمہ اللہ نے صرف اس ڈر سے کہ جہلاء اسے رمضان کے ساتھ نہ ملادیں ،ناپسند سمجھا۔البتہ اس بارے میں وارد احادیث سے جو فضیلت ملتی ہے اس بنا پر کوئی روزہ رکھتا ہے تو یہ مستحسن ہے ،اس میں کوئی کراہت نہیں۔‘‘ پھر فرماتے ہیں : ’’ قال شيوخنا إنما كره مالك صومها مخافة ا ن يلحق الجهلة برمضان غيره.‘‘ [3] |