Maktaba Wahhabi

103 - 135
ثالثاً:اگر الدھر کا لفظ مفتی صاحب پر اتنا ثقیل گزر رہا ہے کہ اس کی بنیاد پر اصل حدیث کا ہی انکار کردیں ۔تو پھر اس مفہوم کا اجر دیگر روزوں اور عبادات کے لئے بھی ثابت ہے۔مثلاً تین روزوں ایام بیض کی فضیلت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے: [من صام ثلاثة ا يام من كل شهر فذلك صوم الدهر فا نزل الله عز وجل تصديق ذلك في كتابه:﴿ مَنْ جَاۗءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ عَشْرُ اَمْثَالِهَا﴾(الانعام:160)فاليوم بعشرة ايام] [1] ترجمہ :جس نے ہرمہینے تین روزے رکھے (ایام بیض کے) یہ پورے سال کے روزے کے برابر ہے۔اس کی تصدیق اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں نازل کی ہے۔کہ جس نے ایک نیکی کی اسے اس کے مثل دس نیکیوں کا اجر ملے گا۔تو گویا کہ ایک دن دس دن کے برابر ہوا۔ نیز یہ اللہ کی طرف سے خصو صی عنایت ہے کہ اللہ تعالی نے جو بھی چیز تخفیفاً مسلمانوں سے ہٹائی ،اس کے اجر میں کوئی کمی نہیں کی۔مثلاًپہلے پچاس نمازیں فرض تھیں ،پھر پانچ نمازیں ہوئیں ۔اور پانچ نمازوں کی فرضیت کے وقت کہا گیا کہ نمازیں پانچ ہیں اور اجر پچاس کا ہی ملے گا۔تو یہ اللہ تعالی کی خصوصی عنایت ہے۔ اسی طرح اگر ایک شخص بغیر کسی ناغے کے اور بغیر سوئےمسلسل سال بھر کی راتوں کا قیام کرتاہے۔تو اس کا یہ عمل شریعت میں مستحسن نہیں ،جیسا کہ اس میں تین صحابہ والے واقعے سے اس کی نفی پر نص موجود ہے۔لیکن اللہ تعالی نے اجر کا سلسلہ ایسا رکھا کہ ایک رات ( لیلۃ القدر)جسے ہزار راتوں کی عبادت سے افضل قرار دے دیا۔جبکہ ہزار راتوں کا قیام مسلسل بغیر ناغے کے کرنا مستحسن نہیں ۔ جولوگ صیام الدھر کی منع کے ذریعے سے استدلال کرکے ان روزوں کو ممنوع قرار دیتے ہیں ،ایسے لوگ نادانی کی انتہاء کو پہنچے نظر آتے ہیں ،اس لئے کہ ان کے اس فلسفے کی وجہ سے حج مبرور کے ثواب ،پانچ نمازوں کے ثواب اور ایام بیض کے رزوں کے اجر وغیرہ سب پر سوالیہ نشان کھڑا ہوجاتا ہے؟اور سب کو اگر اسی عینک سے دیکھا جائے تو سب مکروہ نظر آتے ہیں ۔
Flag Counter