Maktaba Wahhabi

48 - 143
شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے جیسا کہ اس کی تفصیل پہلے گزری۔ کیونکہ بیوی کو حق طلاق تفویض کرنے میں ان تمام حکمتوں کی نفی ہے جو حق طلاق کو صرف مرد کے ساتھ خاص کرنے میں مضمر ہیں ۔ اس اعتبار سے عورت کو کسی بھی مرحلے میں حق طلاق تفویض نہیں کیا جا سکتا۔ نہ ابتدا میں عقدِ نکاح کے وقت اور نہ بعد میں عدمِ موافقت کی صورت میں ۔ عدم موافقت کی صورت میں چار صورتیں جائزہوں گی جن کی تفصیل گزری۔ ہم خلاصے کے طور پر اسے دوبارہ مختصراً عرض کرتے ہیں : 1.تخییر:نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرح خاوند کی طرف سے عورت کو اختیار دیا جا سکتا ہے کہ وہ خاوند کے ساتھ رہنا پسند کرتی ہے یا نہیں ؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہو تو خاوند اس کو طلاق دے کر اپنے سے علیحدہ کر دے، جیسا کہ ﴿أُمَتِّعكُنَّ وَأُسَرِّ‌حكُنَّ سَر‌احًا جَميلًا﴾سے واضح ہے، یعنی طلاق دے کر علیحدگی کا کام مرد ہی کی طرف سے ہو گا۔ 2. توکیل: یا پھرحَکَمیْن (دوثالثوں ) کے ذریعے سے توکیل کا اہتمام کیا جائے گا۔ ایک ثالث خاوند اور ایک بیوی کی طرف سے ہو گا۔ وہ دونوں میاں بیوی کی باتیں آمنے سامنے یا الگ الگ (جو بھی صورت مناسب اور مفید ہو گی) سنیں گے اور اس کی روشنی میں صلح و مفاہمت کی مخلصانہ کوشش کریں گے لیکن اگر یہ کوشش کامیاب نہ ہوئی تو پھر وہ، ان دونوں کے درمیان جدائی کا فیصلہ کر دیں گے۔ یہ فیصلہ بھی طلاق کے قائم مقام ہو گا۔ 3. یا أَمْرُكِ بِیَدِكِ، کہہ کر خاوند عورت کو علیحدگی کا حق دے دے۔ یہ بھی اختلافات ختم کرنے کی ایک صورت ہے جو آثارِ صحابہ سے ثابت ہے اور یہ طلاقِ کنائی کی ایک شکل ہے۔ 4. یا خلع یا پنچایت کے ذریعے سے علیحدگی عمل میں لائی جائے گی۔ خلع کی صورت میں عورت کو حق مہر وغیرہ واپس کرنا پڑے گا۔ ان چار طریقوں کے علاوہ کوئی چوتھا طریقہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق نہیں ہو گا۔ اور یہ تفویض طلاق پانچواں طریقہ ہے جو فقہا کا ایجاد کردہ ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل ہے، نہ صحابہ و تابعین کا کوئی اثر اس کی تائید میں ہے۔
Flag Counter