اداریہ عوام اور علماء کرام میں خلیج اسباب اور علاج خالد حسین گورایہ الحمد للّٰه والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ بلا کسی طویل تمہید کے نفس موضوع پر آتے ہوئے ہم یہ کہنے کی جسارت کر رہے ہیں کہ اس وقت معاشرے کی شکست وریخت، تنزلی وانحطاط، بے راہ روی اور شتر بے مہاری کے جہاں دیگر اسباب ہیں وہاں مرکزی سبب اہل علم اور عوام الناس کے مابین وہ خلیج اور فاصلہ ہے جسےپُر کرنے کیلئے دونوں طبقوں کی جانب سے کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روحانی امراض میں اضافہ ہوتا رہا، جہالت بڑھتی چلی گئی۔ اہل علم کی زبانوں پر شکوہ سننے کو ملتا ہے کہ عوام علماء کی قدر داں نہیں ! اور عوام کہتے ہے اہل علم کو ہمارے مسائل سے سروکار نہیں !۔ بڑا طویل عرصہ ہوا ہے اس کشمکش کو شروع ہوئے، دوریاں بڑھتی جا رہی ہیں ، بد ظنی، بے یقینی کی فضا چھائی ہوئے ۔ اس اختلاف کا نقطہ آغاز جاننے کیلئے ہمیں آج سے کچھ تین چار صدیاں پیچھے جانا ہوگا۔ اس وقت مسلمان جس تہذیب کے دلدادہ ہیں وہ تہذیب ان کی نہیں غیروں کی ہے۔ اس کا پس منظر کچھ اس طرح ہے کہ آج سے تین چار صدیاں قبل کا زمانہ یورپ میں بادشاہ، جاگیر دار اور پوپ کے ظالمانہ اقتدار کے خلاف شدید ترین رد عمل کا زمانہ تھا جس کے نتیجے میں بادشاہت اور جاگیر داری نظام کا مکمل خاتمہ ہوا۔ پوپ جو مذہبی نمائندہ تھا اس کے کردار کو گرجے کی چار دیواری تک محدود کردیا گیا۔پوپ کو گرجے تک محدود کرنے کے بعد اجتماعی معاملات سے مذہب کے کردار کو ختم کرکے گرجے تک محدود کردیا گیا،مذہب اور اس کے احکامات پر عمل کرنا شخص کے ذاتی اور پرائیوٹ مسئلہ قرار دیا گیا اور طے یہ کردیا گیا کہ سوسائٹی اپنے اجتماعی معاملات خود ہی طے کرے گی اسے کسی بیرونی رہنمائی کی ضرورت نہیں ۔ اس صورت حال کے نتیجے |