کہ آسمان والوں کے نزدیک زمین والوں میں سے کون سب سے زیادہ محبوب ہے؟ لوگوں نے کہا: ضرور بتائیے۔ انہوں نے کہا: یہ وہی نوجوان ہے، اللہ کی قسم! صفین کی جنگ کے بعد سے نہ میں نے ان سے کوئی بات کی ہے اور نہ انہوں نے مجھ سے بات کی ہے، اللہ کی قسم! وہ مجھ سے راضی ہو جائیں ، یہ میرے نزدیک احد پہاڑ کے برابر خزانے سے بھی بہتر ہے۔ ابوسعید نے ان سے کہا: کیا آپ ان کے پاس نہیں جائیں گے؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں ۔ سب لوگ ان کے پاس جانے کے لیے نکلو۔ میں بھی ان دونوں کے ساتھ گیا، ابوسعید نے اجازت لی تو ان کو اجازت ملی، ہم گھر میں داخل ہوگئے، انہوں نے ابن عمرو رضی اللہ عنہما کے لیے اجازت مانگی، وہ برابر اجازت مانگتے رہے، یہاں تک حسین رضی اللہ عنہ نے ان کو اجازت دے دی، وہ اندر آئے، جب ان کو دیکھا تو ابو سعید نے ان کے لیے جگہ چھوڑی، ابن عمرو رضی اللہ عنہما کھڑے ہوگئے، بیٹھے نہیں ، جب حسین رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھا تو ابو سعید رضی اللہ عنہ سے دور ہوگئے اور ان کے لیے جگہ بنائی، پس ابن عمرو رضی اللہ عنہما ان دونوں کے درمیان بیٹھ گئے، پھر ابو سعید رضی اللہ عنہما نے پورا قصہ سنایا، حسین رضی اللہ عنہ نے کہا: ابن عمرو رضی اللہ عنہما ! کیا اسی طرح ہے؟ کیا تم جانتے ہو کہ زمین والوں میں سب سے زیادہ آسمان والوں کے نزدیک میں محبوب ہوں ؟ انہوں نے کہا: جی ہاں ! رب کعبہ کی قسم! آپ زمین والوں میں آسمان والوں کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہیں ۔ حسین رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا: پھر تم نے جنگ صفین میں میرے خلاف اور میرے والد کے خلاف جنگ کیوں کی؟ اللہ کی قسم! میرے والد مجھ سے بہتر ہیں ۔ انہوں نے کہا: جی ہاں ! میں نے آپ کے خلاف جنگ کی، لیکن عمرو رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس میری شکایت کی اور کہا: عبداللہ رضی اللہ عنہ دن کو روزہ رکھتے ہیں اور رات بھر نماز پڑھتے ہیں ۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نماز پڑھو اور سؤو، روزہ رکھو اور افطار کرو اور عمرو رضی اللہ عنہ کی اطاعت کرو۔‘‘ جب صفین کا دن آیا تو انہوں نے مجھے قسم دی، اللہ کی قسم! مجھ سے ان میں کوئی اضافہ نہیں ہوا، نہ میں نے تلوار چلائی، نہ میں نے نیزہ مارا اور نہ میں نے تیر پھینکا۔ حسین رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ خالق کی معصیت میں مخلوق کی اطاعت نہیں |