بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
مقدمہ
برصغیر پاک و ہند میں جن علماے کرام نے تحریر و خطابت اور بحث و مناظرے کے ذریعے سے دینِ اسلام کی بھرپور خدمت کی اور مخالفین کے حملوں کی جواب دہی میں پوری تن دہی اور جاں فشانی سے حصہ لیا، ایسے اکابر علماے دین میں امام المناظرین مولانا احمد دین گکھڑوی کا نام نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ آپ کی دینی خدمات اور خداداد صلاحیتوں کے پیشِ نظر شیخ الاسلام مولانا ثناء اﷲ امرتسری (۱۸۶۸۔ ۱۹۴۸ء) نے فرمایا تھا کہ میرے بعد مخالفینِ اسلام سے نپٹنے اور انھیں میدانِ مناظرہ میں زیر کرنے کے لیے احمد دین موجود ہوگا۔
یہ مولانا احمد دین گکھڑوی کے عنفوانِ شباب کا زمانہ تھا، چنانچہ بعد کے حالات نے واقعی شیخ الاسلام امرتسری رحمہ اللہ کی پیشین گوئی سچ کر دکھائی اور مولانا احمد دین کو بحث و مناظرہ کا جہاں بھی موقع ملا، انھوں نے فریقِ مخالف کا پوری طرح سے تعاقب کیا اور فتح و کامرانی آپ ہی کے حصے میں آئی۔ مولانا گکھڑوی تحدیثِ نعمت کے طور پر خود ہی فرمایا کرتے تھے کہ مجھے کسی مناظرے میں کبھی شکست نہیں ہوئی۔ میدانِ مناظرہ میں ایسی ہی کامیابیوں کی بنا پر جماعتِ اہلِ حدیث کے معروف مناظر حافظ عبد القادر روپڑی رحمہ اللہ (۱۹۲۰۔ ۱۹۹۹ء) نے انھیں ’’استاذ المناظرین‘‘ کا لقب دیا تھا۔
اگرچہ مولانا گکھڑوی مرحوم نے اصل شہرت خطابت اور مناظرے کے میدان میں پائی، لیکن اس کے ساتھ ہی تحریر اور تصنیف و تالیف کی طرف بھی توجہ مبذول رکھی اور حسبِ ضرورت اس میدان میں بھی عقائد کی اصلاح اور مخالفین کے شبہات و اِشکالات کے ازالے میں قابلِ قدر خدمات سر انجام دی ہیں ۔ آپ نے مختلف موضوعات پر متعدد کتب لکھی ہیں اور مختلف اوقات میں بعض مضامین بھی سپردِ قلم کیے ہیں ۔
|