جا سکتا تھا: ((يَوْمَ يُدَفعونَ إِلَىٰ نَارِ جَهَنَّمَ دَفعا))مگر اس سے دھکا دینے کا صوتی تاثر پیدا نہیں ہوتا ہے۔ ((يَوْمَ يُدَعُّونَ إِلَىٰ نَارِ جَهَنَّمَ دَعًّا)) پڑھتے ہوئےتو دھکا دینے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ جیسے دھکا دیا جائے اس کے گلے سےجو آواز نکلتی ہے دعّا میں تو اس کا بھی صوتی تاثر آگیا۔
(2)۔ یہ آیت ملاحظہ کیجیے۔
((كَلَّا إِذَا دُكَّتِ الْأَرْضُ دَكًّا دَكًّا))
آپ عربی چاہے نہ جانتے ہوں، یہ آیت سنتے ہوئے بھونچال کی سی کیفیت تو ہر شخص محسوس کرتا ہے۔ اس آیت کو پڑھتے ہوئے دیواروں کے باہم ٹکرانے کی آواز سنائی دیتی ہے۔
(3)۔ (( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ))
(اے ایمان والو! تمھیں کیا ہو گیا جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں کوچ کرو، تم زمین پرڈھیر ہوئے جاتے ہو۔ )
اس آیت میں ((اثَّاقَلْتُمْ))سنتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ کوئی بوجھل انسان زمین پر گر گیا ہو اور اس سے اُٹھانہ جاتا ہو۔ یہاں ((تشاقلتم)) نہیں کہا کہ اس سے صوتی تاثر برباد ہوتا ہے۔
(4)۔ (( عُتُلٍّ بَعْدَ ذَٰلِكَ زَنِيمٍ))
(وہ اکھڑ ہے۔ اس کے علاوہ بد اصل بھی ہے)
((عُتُلٍّ))کا لفظ اکھڑپن کی تصویر کھینچ رہا ہے۔ کبھی ایک حرف تکرار سے قرآن مجید میں صوتی تاثرپیدا کیاگیا ہے۔ مثلاً سورۃ الناس دیکھیے۔ اس کی THEMEوسوسہ اندازی ہے۔ حرف سین کی تکرار سے پوری سورت میں وسوسہ اندازی کی ایک فضا پیدا کردی گئی ہے۔
((قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ ﴿1﴾ مَلِكِ النَّاسِ ﴿2﴾ إِلَـٰهِ النَّاسِ ﴿3﴾ مِن شَرِّ الْوَسْوَاسِ
|