کائنات میں دمبدم اور پیہم ہو رہا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ کہیں کہ فلاں شخص کے پاس دولت بہت ہے اور وہ خرچ بھی بے دریغ کرتا ہے۔ رحمان اور رحیم میں سے کوئی لفظ بھی حذف ہوتا، تو بات ادھوری رہتی۔
کلام کا حشو و زوائد سے پاک ہونا جسے تنقید کی بولی میں ECONOMY OF WORDSکہتے ہیں قرآن مجید سے سیکھئے۔ افسوس کہ اکثر علماءکرام کی طبیعت پر اسلوب قرآن کا اثر الٹا ہوا۔ حشو و زوائد کا استعمال سب سے زیادہ منبر پر ہونے لگا ہے۔ جہاں ایک لفظ کی ضرورت ہو وہاں دس لفظ بولتے ہیں۔ اور قلاش ہیں اور نادار ہیں اور POOR ہیں۔ “
اگر خطیب پانچ جماعت پڑھے ہوئے ہوں تو ساتھ POOR کا لفظ بھی ٹانک دیتے ہیں۔
باراں کہ درلطافت طبعش خلاف نیست
درباغ لالہ روید و در شورہ یوم خس
(بارش کی لطافت میں کسے اختلاف ہو سکتا ہے۔ اسی بارش سے باغ میں لالہ و گل، سرو و سمن اور سنبل و ریحاں پیدا ہوتے ہیں اور یہی بنجر زمین پر پڑتی ہے تو گھاس پھوس کے سوا کچھ پیدا نہیں ہوتا ہے۔ )
الفاظ کا صوتی تاثرSOUND EFFECT
قرآن مجید میں ایسے الفاظ لائے گئے ہیں کہ ان کا صوتی تاثر ان کا مفہوم سمجھا دینے والا ہوتا ہے۔ یعنی محض ان کے بولنے سے ان کے معانی کی صوتی تصویر کھنچ جاتی ہے چند مثالوں سے بات واضح کرتا ہوں۔
(1)۔ قرآن مجید میں ہے:
((يَوْمَ يُدَعُّونَ إِلَىٰ نَارِ جَهَنَّمَ دَعًّا)) ”جس دن وہ دوزخ کی آگ میں جھونک دیے جائیں گے“
دھکا دینے کے لیے عربی میں اور الفاظ بھی ہیں۔ یوں بھی کہا
|