Maktaba Wahhabi

267 - 300
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس بن عبدالمطلب ہاشمی کا خاص اور دوسروں کا عام ذکر کر کے ان کا کردار بتایا گیا ہے۔ پورےعہد نبوی میں کعبہ کی عمارت اٹھارہ ہاتھ لمبی چوڑی تھی۔ اور سامان و رقم کی کمی کی وجہ سے قریش نے شمالی حصہ بلا تعمیر چھوڑدیا تھا جو حطیم کہلاتا ہے اور نیم مدور(گول جیسا)حصہ ہے مگر دیواروں سے اس کی حد بندی کردی گئی تھی تاکہ یہ معلوم رہے کہ وہ کعبہ کا ہی حصہ ہے۔ ان کا ارادہ تھا کہ وہ بعد میں اس کی تعمیر کر کے اسے اصل مسقف و تعمیر شدہ حصہ میں شامل کر کے دور ابراہیمی کا خانہ کعبہ پوراکردیں گے۔ لیکن وہ بعد میں اسلام سے الجھ گئے اور اسلام و رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی نے تکمیل کی مہلت نہ دی یا وہ اسے ضروری نہ سمجھ سکے۔ فتح مکہ کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ کعبہ کی کامل ابراہیمی بنیادوں پر تعمیر کا خیال کیا لیکن قریش و عرب کے نئے نئے اسلام میں داخل ہونے کے خیال سے باز رہے۔ فن تعمیر کے لحاظ سے خانہ کعبہ کی عہد نبوی کی عمارت خاصی پختہ ہے۔ دیواریں پتھروں سے بنائی گئی تھیں اور مضبوط بھی تھیں۔ چھت اندرون کعبہ میں متعدد(چھ بروایت بخاری)ستونوں پر قائم کی گئی تھی اور دیواروں تک وسیع تھی۔ اوپر کے حصہ میں عمدہ مٹی کا پلاسٹر کیا گیا تھا۔ حطیم کی جانب ایک بڑا پرنالہ رکھاگیا تھا جس کیطرف چھت کی ڈھال تھی تاکہ بارش کا پانی اس سے نکل سکے۔ وہ میزاب رحمت کہلاتا ہے۔ چھتوں کے ڈھال کے سرے پر عام طور سے پرنالہ (میزاب) لگایا جاتا تھااور وہ بساوقات پڑوسیوں میں باعث فساد بنتا تھا۔ حجر اسود کے قریب کے رکن سے متصل خانہ کعبہ کے اندر جانے کا ایک بڑا دروازہ خاصی اونچائی۔ قدآدم سے بھی زیادہ۔ پررکھا گیا تاکہ سب اندر نہ جا سکیں اور جائیں تو اجازت اکابر سے جائیں۔ دروازہ میں دونوں پاٹ عمدہ لکڑی کے تھے اور چول پر قائم تھے۔ دونوں کواڑوں کو بند کر کے دہلیز سے ملادیا جاتا تھا اور اس میں ایک بڑا قفل لگایا گیا تھا جس کی کنجی ہمیشہ صاحب حجابہ کے پاس رہتی تھی۔ (209)
Flag Counter