ایک مضبوط و مستحکم فصیل بنا کر اسے شاندار قلعہ بنا دیا گیا تھا۔ یہودی بستیوں میں خیبر کے قلعے بہت سے تھے اور وہ چھ سات گروپ میں منقسم تھے اور ہر ایک وسیع و عریض شہرتھا۔ یثرب میں قلعوں کے علاوہ آطام بہت تھے اور وہ شاندار تعمیرات تھیں جن میں ہر طرح کی عمارتیں، تالاب، کنوئیں وغیرہ ہوتے تھے۔ ان آطام میں بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ کے آطام مشہور اور مستحکم تھے لیکن اوس و خزرج کے بعض بطون واکابر کے بھی شاندار آطام تھے۔ مکہ مکرمہ بیت اللہ کی وجہ سے حملوں سے محفوظ تھا۔ لہٰذا وہاں قلعوں اور گڑھیوں کا وجودنہ ہو سکا لیکن امراء کے محلات و آطام رکھتا تھا۔ عام اور اوسط آبادی کی عمارتیں اور بیوت ودُور(گھر) معمولی سے اوسط درجہ کے تھے اور ان میں سے بعض شاندار بھی تھے(208)۔ عمارت خانہ کعبہ سیرت نبوی کے واقعات میں عہد نبوی کے دو واقعات تعمیر خانہ کعبہ کا ذکر آچکا ہے۔ وہ اس کی بعض تفصیلات بتاتا ہے۔ فن تعمیر کے لحاظ سے وہ شروع شروع میں ایک چوکھٹا معمولی جھونپڑاسا تھا اور اس کی دیواریں سیلاب میں بہہ جاتی تھیں۔ بعثت نبوی سے قبل سنہ 605ءمیں اس کی دوسری تعمیر قریش خاصی مستحکم بنیادوں پر کی گئی تھی جو پورے عہد نبوی میں باقی رہی۔ قریشی بطون کے اکابر و عوام نے نئےسرےسے اس کی عمارت تعمیرکی اور اس میں ہر خاندان کے لوگوں نے اپنے حصہ کی تعمیر کی۔ اصل ابراہیمی بنیادوں پر تعمیر کا کام شروع ہوا اور دیواریں پتھروں سے جوڑ کر بنائی گئیں اور چھت لکڑی کے تختوں سے قائم کی گئی جو اندرون خانہ کعبہ کے چھ ستونوں پر قائم تھی اور وہ ستون لکڑی کے تھے ان کو بنانے میں ایک قبطی نجار نے حصہ لیا تھا جیسا کہ ذکر آچکا۔ روایات سیرت و حدیث میں قریشی اکابر و عوام کے علاوہ بچوں لڑکوں کے پتھر ڈھونےاور پہاڑوں سے لانے کا ذکر ہے۔ دونوں تعمیرات میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم |