آخرت کیلئے تیار نہ ہوا اور اسی حالت میں اچانک اس کی موت آگئی اور مزید مہلت نہ ملی تو وہ کسی اور کو ملامت کرنے کی بجائے اپنے آپ کو ہی ملامت کرے ، کیونکہ اب اللہ تعالیٰ کے حقوق بجا نہ لانے کا اس کیلئے کوئی عذر باقی نہیں رہا ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَعْذَرَ اللّٰہُ إِلَی امْرِیئٍ أَخَّرَ أَجَلَہُ حَتّٰی بَلَّغَہُ سِتِّیْنَ سَنَۃً [1])) ’’ اس شخص کیلئے اللہ تعالیٰ نے کوئی عذر نہیں چھوڑا جس کی موت کو اس نے اتنا مؤخر کیا کہ وہ ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ گیا۔ ‘‘ اگر کوئی انسان اللہ کے فضل وکرم سے اب تک صراط مستقیم پر چلتا رہا ہے اور اپنے گناہوں پر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتا رہا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ سے پرامید رہے اور اپنے آپ کو سنوارنے کی مزید کوشش کرتا رہے۔ کیونکہ اعمال کا دارو مدار خاتمہ پر ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ الزَّمَنَ الطَّوِیْلَ بِعَمَلِ اَہْلِ الْجَنَّۃِ ، ثُمَّ یُخْتَمُ لَہُ عَمَلُہُ بِعَمَلِ أَہْلِ النَّارِ،وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ الزَّمَنَ الطَّوِیْلَ بِعَمَلِ أَہْلِ النَّارِ،ثُمَّ یُخْتَمُ لَہُ عَمَلُہُ بِعَمَلِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ [2])) ’’ بے شک ایک آدمی لمبے عرصے تک اہلِ جنت والا عمل کرتا رہتا ہے ، پھر اس کا خاتمہ جہنمیوں کے کسی عمل پر ہو جاتا ہے ۔ اور ایک آدمی لمبے عرصے تک جہنم والوں کے عمل کرتا رہتا ہے ، پھر اس کا خاتمہ اہلِ جنت کے کسی عمل پر ہو جاتا ہے۔ ‘‘ اور حضرت سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین کا ( کسی جنگ میں )آمنا سامنا ہوا اور دونوں فوجوں میں شدید لڑائی ہوئی ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قیامگاہ کی طرف لوٹ آئے اور دوسرے لوگ اپنے ٹھکانوں کی طرف چلے گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم میں ایک شخص ایسا تھا کہ اس کے سامنے مشرکین میں سے جو بھی آتا وہ اس پر حملہ آور ہوتا اور اپنی تلوار سے اس کا کام تمام کردیتا ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کی بہادری دیکھی تو اس کے متعلق کہا : جس طرح آج اس شخص نے شجاعت وبہادری کے کارنامے دکھائے ہیں اس طرح ہم میں سے کسی نے بھی نہیں دکھائے ! |