’’ بے شک اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا بندہ جب کوئی کھانا کھائے یا پانی کا گھونٹ پیئے تو اس کا شکر ادا کرے ۔ ‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بندہ جب کھانے پینے کے بعد اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے تو وہ اس سے راضی ہو جاتا ہے ۔ یہ آیات اور احادیث تو وہ تھیں جو کھانے پینے کی نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے بارے میں ہیں ۔ اسی طرح باقی نعمتوں کے متعلق بھی انسان سے سوال کیا جائے گا کہ تم نے ان کا شکر ادا کیا تھا یا نہیں ؟ ارشاد نبوی ہے :(( یَقُولُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ:یَا ابْنَ آدَمَ !حَمَلْتُکَ عَلَی الْخَیْلِ وَالْإِبِلِ،وَزَوَّجْتُکَ النِّسَائَ،وَجَعَلْتُکَ تَرْبَعُ وَتَرْأَسُ،فَأَیْنَ شُکْرُ ذَلِکَ؟[1])) ’’اللہ تعالیٰ قیامت کے روز فرمائے گا : اے آدم کے بیٹے ! میں نے تمھیں گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار کیا ، تمھاری عورتوں سے شادی کی اور تمھیں رئیس ِ قبیلہ بنا کرعیش وعشرت سے زندگی گذارنے کا موقع دیا۔ تو ان تمام نعمتوں کا شکر کہاں ہے ؟ ‘‘ لہٰذا اُس دن کے پچھتاوے اور حسرت وندامت سے بچنے کیلئے ہم پر لازم ہے کہ آج ہی ہم اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی تمام نعمتوں کی قدر کریں ، اس کے شکر گذار اور فرمانبردار بندے بنیں اور ناشکری سے اجتناب کریں ۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں : ﴿فَاذْکُرُونِیْ أَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوا لِیْ وَلاَ تَکْفُرُونِ﴾ [2] ’’ پس تم مجھے یاد رکھو میں تمھیں یاد رکھوں گا اور تم میرا شکر ادا کرتے رہو اور نا شکری مت کرو ۔ ‘‘ جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کا شکر بہت کم ادا کرتے ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ قُلْ ہُوَ الَّذِیْ أَنشَأَکُمْ وَجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَۃَ قَلِیْلاً مَّا تَشْکُرُونَ﴾[3] ’’ آپ ان سے کہئے کہ اللہ ہی ہے جس نے تمھیں پیدا کیا اور تمھارے لئے کان ، آنکھیں اور دل بنائے ، مگر تم کم ہی شکر ادا کرتے ہو ۔ ‘‘ اس آیت ِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی سب سے بڑی نعمت ذکر فرمائی کہ وہی ہے جس نے تمھیں پیدا کیا، |