Maktaba Wahhabi

93 - 924
بسا اوقات ظرافت نما صحت مند تنقید سے اصلاحِ حال کی طرف اشارہ ہوتا ہے اور ظریفانہ اندازِ بیان سے عبرت و نصیحت کا پہلو بھی واضح ہوتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں : معذرت کے بعد، مولانا رئیس احمد جعفری ندوی کا مقولہ(دارالعلوم دیوبند سے اہلِ حدیث طلبہ کے اخراج کے بارے میں )مکرّر عرض ہے: ’’یہ کیسی عجیب بات ہے، اہلِ حدیث اگر وزیرِ تعلیم ہو تو دیدۂ و دل فرش راہ کیے جاتے ہیں اور اگر طالبِ علم ہو تو بہ یک بینی و دوگوش نکال دیا جاتا ہے۔ ’’یہ اگر سچ ہے تو ظالم اسے کیا کہتے ہیں ۔‘‘ (بزمِ ارجمنداں ، ص:۴۲۵) جماعت اسلامی کے اجلاس پٹنہ میں گاندھی جی مدعو کیے گئے اور ڈاکٹر امبیڈکر، جو سات کروڑ اچھوتوں کے ساتھ مسلمان ہو جانے کا اعلان کیا کرتے تھے، ان کو مدعو نہیں کیا گیا، اس پر بھٹی صاحب کا تبصرہ ملاحظہ فرمائیے، ارشاد ہے: ’’ڈاکٹر امبیڈکر کو پٹنہ کے اجتماع میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی تھی، صرف گاندھی جی وہ خوش قسمت تھے جنھیں دعوتِ اجتماع سے نوازا گیا تھا۔ کیا مضائقہ تھا کہ اگر مختلف جماعتوں کے علمائے کرام اور ڈاکٹر امبیڈکر کو ’’مؤلفۃ القلوب‘‘ کے کوٹے سے ہی دعوت کا مستحق سمجھ لیا جاتا۔‘‘( ہفت اقلیم، ص: ۴۷) مخلوط تعلیم اور مخلوط اسمبلی میں کیا فرق ہے؟ جماعتِ اسلامی کے اس موقف پر نقد ملاحظہ فرمائیں : ’’سوال یہ ہے کہ اگر کالجوں اور یونیورسٹیوں میں لڑکوں اور لڑکیوں کا اکٹھے تعلیم حاصل کرنا شریعت کے خلاف ہے تو کیا اسمبلیوں اور سینٹ میں ان کا مردوں کے ساتھ بیٹھنا اور مختلف قسم کی باتیں کرنا اور سننا جائز ہے؟ بڑے لوگ اگرچہ کسی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں ، ان کی کچھ خصوصیات ہوتی ہیں ، جن میں بہت بڑی خصوصیت وعدہ خلافی اور تضاد بیانی ہے۔‘‘ (ہفت اقلیم، ص: ۸۷۔ ۸۸) ۵، ۶؍ مئی ۱۹۶۰ء کو ایوب خاں نے ’’آئین کمیشن‘‘ کے تیار کردہ چالیس سوالات کا جواب دینے کے لیے ایک اجلاس منعقد کیا، جس میں واقعی تمام جماعتوں کے راہنما، معروف جرائد و مجلات کے مدیران، مشہور مساجد کے خطبا اور دیگر علما موجود تھے، بھٹی صاحب رقم طراز ہیں : ’’اجلاس کی جو کارروائی ضبطِ تحریر میں لائی گئی تھی، اس کے آغاز میں اسے ’’سر بر آوردہ علما اور اہلِ فکر کی مجلس‘‘ قرار دیا گیا تھا، بہ الفاظ دیگر اس میں دو قسم کے حضرات شریک ہوئے تھے ایک ’’سر بر آوردہ علما‘‘ اور دوسرے ’’اہلِ فکر‘‘۔۔۔ ان انیس شرکا میں سر برآوردہ علما کی تعداد سترہ تھی اور اس حساب سے ان کی نمایندگی ماشاء اللہ بڑی معقول تھی، لیکن اہلِ فکر صرف دو تھے، ایک میں اور ایک میاں طفیل محمد۔۔۔! مجھے اپنے آٹے دانے کی فکر رہتی تھی اور میاں صاحب کو اپنے ادارے کی کتابیں چھاپنے اور بیچنے کی۔۔۔!!‘‘ ( ہفت اقلیم، ص: ۹۸۔ ۱۰۴)
Flag Counter