ہی کو یاد کیا گیا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ریڈیو پر تقریر تو کیا، لوگوں کے گھروں میں ریڈیو ہی نہ ہوتا تھا، خود بھٹی صاحب کے گھر میں ریڈیو نہ تھا۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ مولانا بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے ریڈیو والوں سے کہہ کر ’’زندہ تابندہ‘‘ پروگرام میں برصغیر کے ۴۵ علمائے اہلِ حدیث پر تقریریں کیں ۔ پہلی دفعہ اتنی تعداد میں اہلِ حدیث کا تذکرہ ریڈیو پر ہوا، بالعموم دیوبندی، بریلوی اور شیعہ حضرات کے تذکرے تو ہوتے ہی رہتے تھے۔ فاضل گرامی بھٹی صاحب رحمہ اللہ کا قلم و قرطاس سے رشتہ تقریباً ۱۹۴۹ء یا اس سے قبل قائم ہوا تھا، جس پر کم از کم(۶۷)سڑسٹھ سال کا عرصہ گزر رہا ہے، اس رشتے کی پختگی کا اندازہ اس سے لگائیے کہ ہائی کورٹ کے اپنے جج دوست کی طرف سے ہموار کردہ وظیفۂ مشیر عدالت اور نظریاتی کونسل کی رُکنیت وغیرہ محض اس لیے قبول نہ کی کہ کہیں اس رشتے میں دراڑ نہ آجائے۔ اب اس رشتے کے بعد کسی دوسرے رشتے کی کوئی ضرورت نہیں ، گویا فرما رہے ہوں : ع سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعد قرطاس و قلم سے والہانہ وابستگی ہی کا نتیجہ ہے کہ مختلف موضوعات پر بہت لکھا اور خوب لکھا، بطور خاص تاریخ و تذکرے اورسیرت و سوانح کے باب میں برصغیر کے اندر اُن کا کوئی ہم پایہ نہیں ۔ مولانا بھٹی صاحب جذبۂ شکر گزاری کے طور پر خود رقم طراز ہیں : ’’میری اب تک کی تحریریں حسبِ ذیل نوعیت کی ہیں : 1۔تصانیف و تراجم۔ 2۔اخباری مقالات و مضامین۔ 3۔اخباری اداریے اور شذرات۔ 4۔بے شمار کتابوں پر تبصرے۔ 5۔بہت سی کتابوں پر مقدمے۔ ۔6ریڈیائی تقریریں ۔ حساب کیا جائے تو یہ خدمات جو چھے اقسام پر منقسم ہیں ، تقریباً پچاس ہزار صفحات تک پہنچ جاتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے جو اس نے اس فقیر پر فرمایا۔‘‘(گزر گئی گزران، ص: ۲۶۳) ظرافت و بذلہ سنجی اور لطیفہ گوئی و خوش طبعی ان کی فطرتِ ثانیہ ہے۔ لطیفے کا ان کے بغیر اور ان کا لطیفے کے بغیر گزارا ہی نہیں ، اس سے نہ ان کی کوئی تحریر خالی ہوتی ہے اور نہ تقریر، مجلس میں سوز و ساز دونوں کیفیتوں کی آمیزش ہوتی ہے۔زندہ دلی کا یہ عالم ہے کہ وہ خود اپنے آپ کو یا کوئی دوسرا بھی انھیں ہدف بنا لے تو اس سے محظوظ ہوتے ہیں ۔ان کا خود ارشاد ہے کہ ’’زندگی اسی کا نام تو نہیں کہ آپ ہر وقت ماتھے پر تیوریاں چڑھائے رکھیں اور کسی سے ہنسی مذاق کی کوئی بات نہ کریں ، طنز و مزاح زندگی کے لازمی اجزا ہیں ، انھیں ہر گز دوائرِ حیات سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔‘‘( ہفت اقلیم، ص: ۸۸) |
Book Name | ارمغان مورخ اہل حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی |
Writer | حمید اللہ عزیز |
Publisher | ادارہ تفہیم الاسلام احمدپورشرقیہ، بہاول پور/ دار ابی الطیب، گوجرانوالہ |
Publish Year | مارچ 2016ء |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 924 |
Introduction |